غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
غزہ کے الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ نے کہا ہے کہ یہ کمپلیکس غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں زخمی ہونے والوں کے لیے بنیادی منزل بن گیا ہے جب المعمدانی ہسپتال پر بمباری کے بعد اس کے کئی شعبے مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں اور یہ ہسپتال سروس سے باہر ہوگیا ہے۔
ابو سلمیہ نے وضاحت کی کہ تباہ شدہ الشفاء ہسپتال پوری صلاحیت کے ساتھ کام نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ اپنی گنجائش کے صرف 25 فیصد سے کم صلاحیت پر کام کررہا ہے۔
18 مارچ کو قابض اسرائیلی فوج نے الشفاء کمپلیکس پر 14 دن تک دھاوا بول کر انخلاء سے قبل اس کی عمارتوں کو بڑے پیمانے پر تباہی اور فلسطینیوں کی لاشوں بشمول خواتین کو اجتماعی اور انفرادی قبروں میں دفن کرنے کے خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
ابو سلمیہ نے انادولو ایجنسی سے مزید کہا کہ "الشفاء ہسپتال کے علاوہ جنوبی غزہ میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی سے منسلک القدس ہسپتال اور شہر کے مرکز میں سرایا اسکوائر میں ہلال احمر ہسپتال بھی ہے۔ دونوں کی صلاحیتیں محدود ہیں اور وہ بڑی تعداد میں زخمیوں اور بیماروں کو سنبھال نہیں سکتے۔”
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اکتوبر 2023ء میں نسل کشی کے آغاز کے بعد سے قابض اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اس سے پہلے سے ہی خستہ حال صحت کے نظام پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر ابو سلمیہ نے غزہ کو فوری طور پر آپریشنل کمروں سے لیس نئے فیلڈ ہسپتال فراہم کرنے اور اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والے شدید زخمیوں
کے علاج ، ادویات اور طبی سامان کے داخلے پر زور دیا۔
انہوں نے الشفاء ہسپتال کی استعداد کار میں اضافہ کرنے اور اسے ضروری آلات اور سامان فراہم کرنے پر زور دیا تاکہ بیپٹسٹ ہسپتال کی بندش کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کیا جا سکے۔