چهارشنبه 30/آوریل/2025

غزہ : فلسطینی عوام جو اپنا کھانا امید کی راکھ پر پکاتے ہیں

جمعہ 11-اپریل-2025

جنگی جارحیت کی زد میں آئے غزہ شہر میں  موجود ام خلیل  لکڑیوں سے جلنے والے چولہے کے پاس بیٹھی ہیں۔

وہ انگاروں کو پھونک کر کھانے کے لیے آگ جلانے کی کوشش کرتے ہوئے زندگی کو ان ملبے کے ڈھیروں سے بھی پھر سے جلا بخشنا چاہتی ہیں۔ کئی ہفتے پہلے ہی غزہ کے اس علاقے میں گیس کی فراہمی معطل کر دی گئی تھی۔ بجلی کا نظام بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ اب بجلی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں آتی۔

ام کلیل کے لیے لکڑی کا یہ چولہا جلانا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے۔ کیونکہ وان کے لیے اب لکڑی خرید کراستعمال  کرنا بھی آسان نہیں رہا ہے۔ تاہم وہ اپنے بچوں کی زندگیاں بحال رکھنے کے لیے روٹی پکانے کے لیے ضروری سمجھتی ہیں۔

 انہوں نے کہا ‘  اب ہمارے پاس گیس ہے ، نہ بجلی کی سہولت ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں زندہ تو رہنا ہے۔  وہ لکڑی کا چولہا پھونکنے سے اپنے چہرے پر پڑے دھوئیں کے اثرات کو صاف کررہی تھیں۔ ان کی آنکھیں ان کے سات بچوں پر مرکوز تھیں۔

ان کے بچے ان کے گرد زیتون کے  پودوں کی جڑوں کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔  وہ چاہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو باور کراتی رہیں کہ زندگی کی امید باقی ہے، تسلسل موجود ہے۔

 وہ کہہ رہی تھیں ‘ غزہ کی پٹی پراب ہر کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے۔ روشنی کا اہتمام موم بتیوں سے کیا جاتا ہے۔ کپڑے دھونے کاکام پتھروں پر کیا جاتا ہے۔ کھانے پکانے کے لیے لکڑیاں جلائی جاتی ہیں، گتے کے ڈبے  جلا کر گذارہ کیا جاتا ہے اور ملبے میں موجود ان ٹکروں کو جلا کر چولہے جلائے جاتے ہیں۔

 رہائشی مسائل اس حد کو چھو چکے ہیں کہ واش رومز بھی دستیاب نہیں اور واش روم  پہلے استعمال  کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلے کا ماحول بن جاتا ہے۔  روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کی وجہ سے بعض جگہوں پر چھینا جھپٹی دیکھنے کی افواہیں سامنے آتی ہیں۔ ایک لٹر پانی تک رسائی کے لیے بھی اسی طرح کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ  ایک زیر محاصرہ غزہ میں اب معمول کی زندگی بن چکا ہے۔

 اب غزہ کے بچے بھی بجلی کے نہ ہونے پر پریشان ہوتے ہیں اور نہ ہی  بجلی نہ ہونے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ نہ اب یہ پوچھنے کے عادی رہے ہیں کہ دوپہر کے کھانے میں کیا  ہے اور کب ملے گا۔  البتہ جنگ کب تک چلتی رہے گی اس بارے میں سوال ضرور اٹھایا جاتا ہے۔

 اب یہاں کے عوام پر آسائش زندگی کے کواب بھی نہیں دیکھتے۔ بس گیس سلنڈر سے نکلنے والی ننھی سی امید اس ہلکے سے شعلے کی طرح موجود ہے۔

دھواں اب صرف آسمان کی طرف نہیں اٹھتا بلکہ سوئے ہوئے انسانی ضمیروں تک  پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔  اب غزہ  کے گھروں سے  سوائے اس کے کوئی آگ نہیں ابھرتی بلکہ یہ آگ صرف محاصرے سے اٹھتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی