چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیل کا امریکی کانگریس سے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ پر’مذہبی حق‘ دلانے کا مطالبہ

ہفتہ 15-مارچ-2025

دوحہ – مرکز اطلاعات فلسطین

موجودہ اور سابق وزراء اور کنیسیٹ کے اراکین کے ایک گروپ نے چند روز قبل امریکی کانگریس، سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں کو ایک خط بھیجا ہے جس میں ان سے مسجد اقصیٰ پر "یہودی عوام کے ’ابدی‘ اور ناقابل تردید حق کو تسلیم کرنے” کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

الجزیرہ ڈاٹ نیٹ مو موصول ہونے والی مکتوب کی نقل میں دعویٰ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کے معبد ہیں، جنہیں 2500 سے 1900 سال قبل بابلی اور رومی سلطنتوں نے تباہ کر دیا تھا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "جبکہ خودمختار ریاست اسرائیل اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ان کے مقدس مقامات تک رسائی ان کے تمام مذہبی مقامات پر مکمل شدید بین الاقوامی دباؤ طور پر ہے‘‘۔

مکتوب کے متن کے مطابق "دنیا کے سرکردہ ملک اور اسرائیل کے سب سے بڑے دوست کی طرف سے سرکاری طور پر تسلیم کرنا ان دباؤ کو بے اثر کرنے میں مدد کر سکتا ہے”۔

اس مکتوب 16 افراد نے دستخط کیے، جن میں اسرائیلی وزیر برائے مواصلات اور وزیر ثقافت اور کھیل دونوں شامل ہیں۔ دونوں لیکوڈ پارٹی کے ارکان ہیں۔ نیز یہودا گلِیک اور کنیسٹ کے سابق رکن اور القدس کےڈپٹی میئر موشے فیگلن نے بھی اس پر دستخط کیےہیں۔

یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ بابلیوں نے 586 قبل مسیح میں "پہلا ہیکل” تباہ کیا اور رومیوں نے 70 عیسوی میں "دوسرے ہیکل” کو تباہ کیا۔

مسجد اقصیٰ کے ایک تعلیمی اور تعلقات عامہ کے سابق اہلکار عبداللہ معروف کا کہناہے کہ ظاہری شکل کے باوجود کہ انتہا پسند یہودی ٹیمپل ماؤنٹ گروپس اور قابض اسرائیلی حکومت کا مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ علاقوں پر کسی نہ کسی طرح کا کنٹرول ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس اب بھی مکمل کنٹرول نہیں ہے، اور اس لیے وہ کسی بھی ڈرامے سے متعلق امریکی اقدام کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں "۔

وہ کہتے ہیں کہ "انتہا پسند گروہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں اہم اور حساس معاملات پر موجودہ امریکی انتظامیہ کی غیر مشروط حمایت کی ضرورت ہے، جیسے کہ مغربی کنارے کا الحاق اور گریٹر یروشلم منصوبے پر عمل درآمد۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ کے اندر یہودیوں کے مذہبی رسومات کے حقوق کو تسلیم کرنا جس سے وہ مسجد اقصیٰ کے اپنے بنیادی عبوری مقصد کو حاصل کر سکیں گے”۔

عبداللہ معروف کے مطابق ان گروہوں کو خوف ہے کہ اگر یہ اقدام امریکی حمایت کے بغیر کیا گیا تو وہ اسے بین الاقوامی تحفظ فراہم کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس لیے کہ موجودہ انتظامیہ بین الاقوامی برادری پر اپنی مرضی مسلط کر سکتی ہے اور اس حساس مسئلے سے متعلق اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کرنے والی بین الاقوامی آوازوں کو خاموش کر سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ "انتہا پسند گروہ اب قدامت پسند عیسائی صیہونی تحریک سے تسلیم کرنے کے خواہاں ہیں جو ریپبلکن پارٹی اور امریکی کانگریس، کانگریس کے دونوں ایوانوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس تسلیم کے ذریعے وہ ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یقین ہےکہ ایسا کرنے سے وہ متوقع بین الاقوامی ردِ عمل کو روک سکتے ہیں۔”

مختصر لنک:

کاپی