رمضان المبارک کے دوران جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کے سحرو افطار دسترخوان ، لذیز کھانوں اور گوشت کے پکوانوں سے سج جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی سحرو افطار پر دعوتیں دی جاتی ہیں۔ مگر غزہ کے رہنے والے بے گھر فلسطینی شہری ان بار برکت دنوں کو بھی بند ڈبوں کے کھانوں کے ایک ڈراؤنے خوابوں کے ساتھ گذارنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیلی قابض فوج نے راہداریاں بند کر کے غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کے گرد محاصرہ سخت کرنے کے علاوہ زیر محاصرہ فلسطینیوں کے خلاف بھوک کا ہتھیارایک بار پھر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
غزہ میں رمضان کے پہلے جمعہ کے روز بھی گوشت کی دکانیں عملاً بند اور گاہکوں سے خالی رہیں۔ جبکہ عام سی سبزیوں کی قیمتیں بھی کہیں زیادہ ہو گئی ہیں۔ اس کے علاوہ تیل، چینی اور پھلیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
نیا خواب!
ام مہند کو اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ کئی گھنٹے اس موضوع پر گفتگو کرنا پڑی تھی کہ رمضان کے پہلے جمعہ کی تیاری کیسے کریں۔ وہ توقع کر رہی تھیں کہ انہیں ترکیہ سے آئے گوشت کے ساتھ ایک فلسطینی ڈش کھانے کو فراہم ہو جائے گی۔ لیکن پھر اس سے پہلے کہ ان اشیا تک رسائی ہوتی ،اسرائیلی قابض فوج نے غزہ میں اشیا کی ترسیل روک دی۔
ام مہند کو مارکیٹوں کے بند ہونے اور اکا دکا دکانوں کے کھلا ہونے کے بعد قیمتوں کے اس قدر بڑھ جانے پر بھی سخت تشویش ہے۔ اس لیے بالآخر انہیں عالمی خوراک پروگرام سے فراہم کردہ پھلیوں پر ہی گذارا کرنا پڑا۔
ان کے بچوں نے بھی اس سلسلے میں اس جنگی ستم ظریفی کا ذکرکیا ۔ ان کے پاس ڈبے میں بند وہی امداد روائتی پیکنگ میں پڑی تھی جو ان کے پاس جنگ کے پچھلے کئی ماہ سے کھانے کو وقفے وقفے سے مل جاتی ہے۔ یہی ان کی واحد آپشن باقی ہے جس کے ملنے کی وہ امید کر سکتے ہیں۔
قابض اسرائیلی مسلسل فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بھوک کا ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ تاکہ فلسطینیوں پر دباؤ بڑھا سکیں۔ اور مذاکرات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکیں۔ اب اسی مقصد کے لیے راہداریوں کو نئے سرے سے اسرائیل نے بند کر دیا ہے۔
وہ کہہ رہی تھیں ‘ امید تھی کہ اس سال جنگ کے دوران کا یہ رمضان مختلف ہوگا۔ ہم اس رمضان کے دوران کوئی معقول کھانا بھی حاصل کر سکیں گے۔ لیکن راہداریوں کی نئے سرے سے بندش نے یہ امید بھی ختم کر دی ہے۔’
ام مہند نے کہا ‘ ہم بھی عام لوگوں کی طرح یہ حق رکھتے ہیں کہ رمضان کے دوران لذیز کھانوں سے مستفید ہو سکیں۔ مگر ہم پچھلے دو برسوں سے یہی ڈبے میں بند کیا گیا کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔
اگرچہ ان بند ڈبوں کی بند خوراک نہ صرف یہ کہ غیر صحت بخش ہے بلکہ کھانے کے لیے بھی انتہائی بد ذائقہ اور مشکل ہوتا ہے۔ ام مہند کے ایک بیٹے محمد نے نے بھی اس ڈبہ پیک خوراک کے سلسلے میں مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کے بچے اور ام مہند یہ امید کرتے ہیں کہ دنیا جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی جنگ بندی بھی یقینی بنا سکیں گے۔ کیونکہ اس وقت انتہائی غم
زدہ ا ور زخمی ہے۔ یہاں کا ہر فرد زخمی ہے رنجور ہے۔
ام مہند اور ان کے خاندان کا مطالبہ ہے کہ جنگ بندی جاری رہےتاکہ راہداریاں کھلی رہیں اور ایندھن و خوراک کی ترسیل ممکن رہے۔ بجلی کا نظام چلتا رہے۔
نسل کشی کا حربہ !
فلسطینی تحریک مزاحمت حماس نے راہداریوں کی اس بندش کی مذمت کی ہے اور آتھویں مسلسل روز ان بندشوں کو سخت خطرناک قرار دیا ہے۔ یہ اسرائیل کی طرف سے درحقیقت نسل کشی کی ہی ایک شکل ہے۔
حماس کے ایک ترجمان عبدالطیف نے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ‘ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے لیے ایک اجتماعی سزا ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے فلسطینی کو نسل کشی کی اس شکل کے ذریعے ایک اجتماعی سزا دینے کا بین الاقوامی قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔ ‘
ایک جنگی جرم !
قانونی ماہر صلاح عبدالعطی بین الاقوامی کمیشن برائے فلسطینی امداد کے سربراہ نے کہا امدادی سامان اور خوراک کی ترسیل کا روکنا ایک جنگی جرم ہے۔ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہی ایک شکل ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ‘ انروا’ نے بھی اس صورت حال کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ یہ ترسیل خوراک کا سلسلہ ہزاروں جنگ زدہ خاندانوں کی زندگیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا باعث ہے۔ لیکن اسرائیل نے راہداریوں کو بند کر دیا ہے۔