مرکزاطلاعات فلسطین
قابض اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے ایک حصے کے طور پر فلسطینی قیدیوں کی ساتویں کھیپ کی رہائی کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے ثالثوں سے مداخلت اور اس پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو مجبور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو ملتوی کرنے کا فیصلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک قیدیوں کی رہائی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔
عبرانی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو بسوں میں بٹھایا گیا اور پھر زبردستی اتار کر ان کی جیل میں واپس بھیج دیا گیا۔ یہ قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک اور ان کی مجرمانہ توہین کی عکاسی کرتا ہے۔
فلسطینی قیدیوں کے امور کی نگران فلسطینی ادارے نے تصدیق کی ہے کہ قابض فوج نے قیدیوں کی رہائی کو اگلے نوٹس تک ملتوی کر دیا ہے۔
متعلقہ سیاق و سباق میں امریکی ’ایکسیس‘ کے نامہ نگار نے ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ قیدیوں کی رہائی کو ملتوی کرنے کا فیصلہ نیتن یاہو کی طرف سے ہفتے کی شام ہونے والی دو سکیورٹی میٹنگوں کے بعد کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ سکیورٹی سروسز کے رہنماؤں نے اس خدشے کے پیش نظر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو ملتوی نہ کرنے کی سفارش کی کہ اس سے غزہ میں قید افراد کی لاشوں کی بازیابی متاثر ہو سکتی ہے۔
اسرائیلی اہلکار نے وضاحت کی کہ پہلے سیشن کے اختتام پر عمومی رجحان فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی طرف مائل تھا لیکن دوسرے سیشن کے دوران فیصلہ تبدیل ہو گیا جس میں صرف نیتن یاہو، وزیر دفاع یسرائیل کاٹز، وزیر خارجہ گیدعون ساعر اور وزیر خزانہ بیزلل سموٹریچ نے شرکت کی۔
فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ زخمی قیدی کاظم الظواہرہ کی حوالگی کی منسوخی کے بعد اس کا عملہ القدس کے ہداسا ہسپتال سے واپس چلا گیا ہے۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے کل ہفتے کے روز کہا تھا کہ اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا فیصلہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ شیری بیباس کی جگہ ایک فلسطینی لاش بھیجنے کا جواب دے رہا ہے۔
کل ہفتے کو 620 فلسطینی قیدیوں کی رہائی شام تک نہیں ہوسکی۔ شام کو فلسطینی قیدیوں کو عوفر جیل سے نکال کر بسوں میں بٹھایا گیا جس کے کچھ دیر بعد انہیں دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا۔