جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی معیشت تباہی کے دھانے پر،اسرائیل اور اتھارٹی قصوروار: عالمی بنک

جمعہ 16-ستمبر-2016

عالمی بنک نے فلسطین کی دگرگوں معیشت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر فلسطینی معیشت کو سنھبالا نہ دیا گیا تواس کے نتیجے میں فلسطینی شہروں میں انسانی بحران جنم لینے کا اندیشہ ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عالمی بنک کی طرف سے ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین میں معاشی شرح نمو جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ معیشت کی ابتری کے نتیجے میں غزہ کی پٹی اور فلسطین کے دوسرے شہروں میں غربت  اور بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی مزید ایک بڑی تعداد خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔ اگر فلسطینی معیشت کو سنھبالا نہ جا سکا تو معاشی ابتری سے علاقے میں انسانی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔

رپورٹ میں فلسطینی معیشت کی تباہی کی ذمہ داری اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ امداد دینے والے ممالک پر بھی عاید کی ہے اور کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے فلسطینیوں کے ساتھ امداد کے اعلان کردہ وعدے پورے نہیں کیے جس کے نتیجے میں فلسطینی معیشت ابتری کا شکار رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل بھی ایسے اقدامات نہیں کرسکے جن کے نتیجے میں مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں معیشت کی بہتری، بے روزگاری اور غربت کی شرح کم کرنے میں مدد لی جا سکے۔

عالمی بنک کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ 19 ستمبر کو نیویارک میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ اس رپورٹ کے ذریعے عالمی بنک نے امداد دینے والے ملکوں کو ایک بار پھر جنھجھوڑا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں تعمیر نو اور بحالی کے منصوبوں کے لیے اپنے اعلانات اور وعدوں پرعمل درآمد کریں۔

عالمی بنک کی غزہ اور غرب اردن میں ریجنل ڈائریکٹر مارینا ویس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی معیشت کے اعشاریہ حوصلہ شکن اور باعث تشویش ہیں۔ معیشت کی ابتری کے نتیجے میں شہریوں کی اوسط آمدن کمی ہوئی، روزگار کے مواقع ناپید اور فلاح عامہ کے منصوبے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی معیشت کی ابتری کے دیگر اسباب وعوامل میں مقامی انتظامیہ کی ناقص پالیسیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اقدامات اور خطے میں جاری جنگیں بھی ہیں کیونکہ پورا مشرق وسطیٰ اس وقت خانہ جنگی اور لڑائیوں کی لپیٹ میں ہے اور کئی دوسرے ملکوں کی معیشت بھی تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علاقائی عدم استحکام نے بھی فلسطینی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

عالمی بنک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں معاشی ابتری کے دیگر اسباب میں سب سے بڑا سبب علاقے پراسرائیل کی مسلط کردہ پابندیاں ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی برادری کی طرف سے امداد بھی نہیں مل رہی ہے۔ قاہرہ میں ہونے والی عالمی ڈونر کانفرنس میں غزہ کی پٹی کے لیے 4 ارب ڈالر امداد کے وعدے کیے گئے تھے۔ اس میں صرف 16 فی صد امداد غزہ کی پٹی کو فراہم کی گئی ہے۔ بعد ازاں ڈونر ممالک کی طرف سے 1.3 ارب ڈالر کی امداد موخر کرنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ غزہ کی پٹی کو فراہم کردہ اب تک کی امداد کا 46 فی صد صرف کیا جا چکا ہے مگر جنگ سے متاثرہ علاقے کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگوں کے باعث اب بھی 70 ہزار فلسطینی بے گھر ہیں۔ جنگ سے متاثرہ صرف 10.7 فی صد افراد کو مکانات فراہم کیے جا سکے ہیں جب کہ صہیونی فوج نے سنہ 2014ء کی جنگ میں غزہ کی پٹی میں 11 ہزار مکانات تباہ کر دیے تھے۔

مختصر لنک:

کاپی