فلسطین قوم اپنی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات سموئے ہوئے ہے جب غاصب دشمن نے اجتماعی قتل عام کے ذریعے فلسطینیوں کو نیست ونابود کرنے کی مذموم کوششیں کیں۔ انہی ہولناک اور دہشت ناک واقعات میں 16 ستمبر 1982ء کو لبنان کے صدر مقام بیروت کے قریب واقع فلسطینی مہاجر کیمپ’صبرا وشاتیلا‘ میں بھیانک قتل عام بھی شامل ہے۔
آج اس ہولناک قتل عام کو 34 برس ہوچکے ہیں۔ آج سے چونتیس برس قبل سولہ ستمبر سنہ 1982ء کو قابض اسرائیلی فوج اور اس کی لبنانی جنگجو اجرتی قاتل حزبالکتائب نے ایک منظم طریقے سے فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں تین دن تک کشت وخون کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہزراوں بے گناہ بچے، عورتیں، بوڑھے، مریض اور نوجوان شہید کردیے تھے۔ سولہ ستمبر کی تاریخ جب بھی آتی ہے تو فلسطینوں کے زخم ایک بار پھرتازہ ہوجاتے ہیں۔
آج ایک بار پھر سولہ ستمبر گذرگیا۔ 16، 17 اور 18 ستمبر کے ایام میں صبرا شاتیلا پناہ گزین کیمپ کا تمام اطراف سے محاصرہ کرنے کے بعد مقامی جنگجو اور اسرائیلی دہشت گرد فوج کیمپ میں داخل ہوئی۔ تین روز تک فلسطینیوں کے کشت وخون کا سلسلہ جاری رہا۔ فلسطین ہی نہیں بلکہ لبنان کی تاریخ میں بھی انسانوں کے اجتماعی قتل عام کا یہ بدترین واقعہ شمار ہوتا ہے۔ اسرائیلی فوج اور اس کے اجرتی قاتلوں کی دہشت گردی کے نتیجے میں مجموعی طور پرکتنے لوگ شہید ہوئے اس کے حقیقی اعدادو شمار کبھی سامنے نہیں آسکے کیونکہ کیمپ میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد رجسٹرڈ نہیں تھی۔ اس کے باجود مبصرین کا کہنا ہے کہ 3500 سے 5000 کے لگ بھگ فلسطینی اس دہشت گردی میں شہید کردیے گئے تھے۔
نہتے فلسطینیوں کے اس وحشیانہ قتل عام کے ماسٹر مائینڈ اس وقت کے اسرائیلی وزیردفاع ارئیل شیرون اور فوجی جنرل رفائیل ایٹان تھے۔ نہتے فلسطینیوں کو قتل کرنے اور کیمپ میں تباہی وبربادی کے لیے انہوں نے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں انسانی جانیں چلی گئی تھیں۔
سولہ ستمبر 1982ء کے روز بھاری تعداد میں اسرائیلی فوج، حزب الکتائب کے جنگجوؤں اور جنوبی لبنانی فوج نے صبر اشاتیلا کا محاصرہ کیا۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ اس کیمپ میں 1500 فلسطینی مزاحمت کار روپوش ہیں جو کیمپ سے باہر لڑائیوں میں شریک ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ٹینک اور بلڈوزر اندر داخل ہوئے اور فلسطینی مہاجرین کے کچے مکانات، جھونپڑیاں اور خیمے مسمار کرتے چلے گئے۔ اس دوران سامنے آنے والے فلسطینی بچوں ، عورتوں اور مردوں سب کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کیا جاتا رہا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ارئیل شیرون ایک منتقم مزاج صہیونی تھا۔ اس نے صبرا وشاتیلا پناہ گزین کیمپ میں قتل عام دراصل فلسطینیوں کے انتقام میں کیا۔ اسرائیلی فوج نے تین ماہ تک اس کیمپ کا محاصرہ کیے رکھا مگر کیمپ کے مکینوں نےپورے عزم اور شجاعت کے ساتھ صہیونی فوج کے محاصرے کا مقابلہ کیا اور دشمن کے ساتھ ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ آخر کار اسرائیل کو عالمی دباؤ کے تحت پناہ گزین کیمپ کا محاصرہ ختم کرنا پڑا مگر ارئیل شیرون نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ پناہ گزین کیمپ کی طرف سے پہنچنے والی سبکی کا بدلہ لے گا۔ آخر کار اس نے فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا۔ اپنے اس مذموم اور انسان دشمن مقصد کے لیے لبنان کے اجرتی قاتل اور جنوبی لبنانی فوج کو بھی استعمال کیا۔
لبنانی فورسز کی طرف سے کیمپ میں قتل عام کاایک مقصد یہ بھی تھا کہ فلسطینی مہاجرین لبنان کی سرزمین چھوڑ جائیں۔ یہ بات مشہور کردی گئی تھی کہ فلسطینی مہاجرین لبنان میں فتنہ وفساد اور امن وامان کو خراب کرنے کی سازشوں میں ملوث ہیں۔ یوں اسرائیل اور لبنانی قوتوں نے مل کر فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں معصوم فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام کیا۔