چهارشنبه 30/آوریل/2025

ٹرمپ اور ہیلری القدس صہیونی ریاست کو دینے کی مذموم مہم میں پیش پیش

منگل 27-ستمبر-2016

امریکا میں رواں سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل دونوں صدارتی امیدواروں ری پبلیکنز کے ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن کا اسرائیل کی حمایت، فلسطینیوں، القدس اور یہودی آباد کاری کے حوالے سے موقف کافی حد تک یکساں ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں اور تجزیاتی رپورٹس کے مطالعے پرمبنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دونوں امریکی صدارتی امیدوار اپنی جیت یقینی بنانے کے لیے ’بیت المقدس‘ کی ’قربانی‘ دینا چاہتے ہیں۔ ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی صہیونی ریاست کے مفادات کے لیے کھل کر بات کرتے ہیں اور القدس کے بارے میں دونوں کا لب ولہجہ ایک ہی جیسا ہے۔ اگرچہ قومی سطح پر دونوں ایک دوسرے کو خوب تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

عبرانی ریڈیو نے سوموار کے روز نشر کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ری پبلیکن پارٹی کی صدارتی امیدوارہ ہیلری کلنٹن نے امریکا میں رہنے والے یہودیوں اور یہودی لابی کے ساتھ عہد کیا ہے کہ وہ صدر منتخب ہوکر القدس کے حوالے سے فلسطینیوں کی یک طرفہ سفارتی مساعی کو ناکام بنائیں گی اور سلامتی کونسل سے اسرائیل کے خلاف یک طرف کوئی بھی فیصلہ جاری کرانے کی روک تھام کریں گی۔

مسز کلنٹن کا کہنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات لازم وملزوم ہیں اور ان کا سیاسی منشور اسرائیل کے ساتھ تزویراتی شراکت کو مزید وسعت دینا ہے۔

اتوار کو انہوں نے نیویارک میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے ملاقات میں بھی یقین دلایا صدرت منتخب ہو کر وہ اسرائیل کو تنہا کرنے کی عالمی مساعی کو ناکام بنائیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسرائیل کو یہودی ریاست بنانے کے لیے ہرقسم کی حمایت جاری رکھیں گی اور فلسطینیوں پر اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہے گا۔

دوسری جانب ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر وہ امریکا کے صدر منتخب ہوئے توتل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم جاری کریں گے۔

القدس کے باب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف ہیلری سے زیادہ پرتشدد ہے اور ان کا کہنا ہے وہ بیت المقدس کو فلسطینیوں اور اسرائیل کےدرمیان متنازعہ نہیں مانتے۔ حتیٰ کہ ڈرمپٹ نے کہا ہے کہ وہ صدر منتخب ہو کر فلسطین میں یہودی توسیع پسندی روکنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے بلکہ اسرائیل کو یہودی آباد کاری کی مکمل چھوٹ دیں گے۔

اسرائیلی ریڈیو کی رپورٹ میں بھی کہا گیاہے کہ ٹرمپ اور ہیلری کا القدس کےبارے میں موقف ایک ہے اور دونوں اپنی اپنی جیت یقینی بنانے کے لیے امریکی یہودیوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں اوراس حمایت کے لیے وہ القدس کی قربانی دینا چاہتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی