فلسطین میں صہیونی ریاست کے مظالم، بیت المقدس کو یہودیانے اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے خلاف پچھلے سال اکتوبر کے اوائل سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران تحریک انتفاضہ کو ناکام بنانے کے لیے غاصب صہیونیوں نے 8 ہزار فلسطینیوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا اور انہیں عقوبت خانوں میں اذیتیں دی گئیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین میں اسیران کے امور کے لیے سرگرم ادارے’ اسیران اسٹڈی سینٹر‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں تحریک انتفاضہ القدس کو ناکام بنانے کے لیے اسرائیلی فوج کے ایک سال سے جاری کریک ڈاؤن کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
اسٹڈی سینٹر کے تحقیق کار اور ترجمان ریاض الاشقرنے گذشتہ روز رام اللہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قابض صہیونی فوجیوں اور پولیس نے انتفاضہ القدس کو ناکام بنانے کے لیے طاقت کے وحشیانہ حربے استعمال کیے اور بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یکم اکتوبر 2015ء سے اب تک 8000 فلسطینی شہریوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان میں سے بیشتر فلسطینیوں کو رہا کیا گیا مگر دوران حراست انہیں اذیتیں دی گئیں اور بڑی تعداد میں شہریوں کو انتظامی حراست کی سزائیں دی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتفاضہ القدس کے دوران 2155 کم عمر بچے گرفتار کیے گئے۔ ان میں بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے 12 سالہ بچہ علی علقم بھی شامل ہیں۔ بیشتر فلسطینیوں کو یہودی آباد کاروں پر چاقو حملوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ تحریک انتفاضہ القدس کو ناکام بنانے کے لیے 270 خواتین کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں 250 کی عمریں 18 سال سے کم بتائی گئی ہیں۔ بعض خواتین اور دو شیزاؤں کوسوشل میڈیا پر سرگرم ہونے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔
ریاض الاشقر کاکہنا ہے کہ گرفتار کی گئی خواتین اور دیگر شہریوں کو منظم انداز میں اذیتیں دی گئیں۔ جیلوں میں ڈالے گئے اسیران کو جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر ٹارچر کیا گیا۔ عالمی قوانین کی پامالی کرتے ہوئے گرفتار کیے گئے 1773 فلسطینیوں کو انتظامی حراست کی سزائیں دی گئیں۔ انتظامی حراست کی سزائوں کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں میں مردوں کے ساتھ آٹھ خواتین بھی شامل ہیں جو ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔ 23 بچوں کو انتظامی قید کی سزائیں دی گئیں جن میں سے 9 ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔
انتفاضہ القدس کے پہلے چند ماہ میں بیت المقدس سے 40 خواتین کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں سب سے کم عمر اسیرہ دیما اسماعیل الواوی کی عمر 12 سال ہے۔ الواوی کو الخلیل شہر سے حراست میں لیا گیا اور چار ماہ تک انتظامی قید میں رکھا گیا۔ گرفتار خواتین میں چھ زخمی عورتیں بھی شامل ہیں۔ ان میں ایک سولہ سالہ مرح جودت باکیر کا نام سر فہرست ہے جب کہ 15 سالہ استبرق نور، 16 سالہ نورھان ابراہیم عواد کو بھی گرفتار کیا۔
تحریک انتفاضہ القدس کو ناکام بنانے کے لیے ہرشعبہ ہائے زندگی کے افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں اساتذہ، طلباء، وکلاء، انجینیر اورسیاست دان اور فلسطینی مجلس قانون ساز کے ارکان بھی شامل ہیں۔ صہیونی فوج نے پانچ ارکان پارلیمنٹ کو بھی حراست میں لیا جن میں سے چار حسن یوسف، محمد ابو طیر، عبدالجابر فقہاء، محمد النتشہ اور سابق وزیر وصفی قبہاء ابھی تک صہیونی جیلوں میں قید ہیں۔
گرفتاریوں میں سب سے زیادہ بیت المقدس سے 110 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں 60 سال کی عمر کے شہری بھی شامل ہیں۔ جامعات کے 190 اساتذہ اور اسکالرز 79 مریض اور درجنوں صحافی بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطین میں یکم اکتوبر 2015ء سے جاری تحریک انتفاضہ میں اب تک 250 فلسطینی شہید اور سیکڑوں فلسطینی زخمی اور ہزاروں گرفتار کیے گئے ہیں۔