اسرائیل میں جاری کردہ اعدادو شمار میں مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے چونکا دینے والے اعدادو شمار بیان کیے گئےہیں۔ صہیونی حکام اور نجی اداروں کی طرف سے جاری کردہ بیانات میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 7 برسوں میں پرانے بیت المقدس میں یہودی آباد کاری میں 70 فی صد اضافہ کیا گیا جب کہ اسی علاقے میں یہودی کالونیوں کی تعداد میں 30 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل میں یہودی آباد کاری کے خلاف کام کرنے والی دو تنظیموں ’’Now Peace‘‘ اور ’’عیر عمیم‘‘ نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ سنہ 2009ء کے بعد بیت المقدس کی یہودی کالونیوں کے اندر 40 فیصد نئے یہودی آباد کیے گیے جب کہ تیس فی صد یہودیوں کو کالونیوں سے باہر آباد کیا گیا۔ یہودی آباد کاری میں غیرمعمولی اضافہ بنجمن نیتن یاھو کے وزیراعظم بننے کے بعد دیکھا گیا ہے۔
دونوں تنظیموں نے سرکاری سطح پرجاری کردہ اعدادو شمار میں بتایا ہے کہ صہیونی حکومت مشرقی بیت المقدس کے علاقوں سلوان او بطن الھویٰ میں بڑے پیمانے پر یہودی آباد کاری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ بطن الھویٰ میں آباد کاری ہی کی وجہ سے اس رپورٹ کو’’بطن الھویٰ پر ضرب کاری‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پرانے بیت المقدس میں پچھلے سات برسوں کے دوران یہودی آبادی میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ یہودی کالونیوں اور نئے مکانات کی تعداد میں 30 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
خیال رہے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب عالمی سلامتی کونسل یہودی کالونیوں کو مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹ کے موضوع پر ایک نئی بحث کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2009ء میں پرانے بیت المقدس میں 102 چھوٹی یہودی کالونیاں تھیں جن میں 2000 یہودی آباد تھے۔ ان کالونیوں میں مزید 40 کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد 778 نئے یہودی وہاں آباد کیےگئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تاریخی حو مقدس نامی جگہ پر 31 چھوٹی یہودی کالونیاں قائم ہیں۔ پرانے بیت المقدس کے قلب میں چار، اور آس پاس کی فلسطینی کالونیوں میں یہودیوں کے لیے رہائشی پلازوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور مزید 5 کالونیاں بنائی گئی ہیں۔ یوں حوض مقدس میں یہودی مکانات کی تعمیر میں 60 فی صد اضافہ ہواہے۔
اس دوران سلوان کے مقام سے 68 فلسطینی خاندانوں کے مکانات خالی کرائے گئے جن میں سے 60 الشیخ جراح اور سلوان جب کہ آٹھ خاندانوں کو پرانی اسلامی کالونی سے بے دخل کیا گیا۔55 فلسطینی خاندانوں کو حالیہ دو برسوں کے دوران وہاں سے بے دخل کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 300 فلسطینی خاندانوں کی بقاء کو خطرہ لاحق ہے۔