فلسطین کے جنگ سے تباہ حال اور اسرائیل کی معاشی ناکہ بندی کے شکار علاقے غزہ کی پٹی میں تعمیر نو کے تعطل کے باعث ہزاروں افراد سنگین مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگرغزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی اسرائیلی پابندیاں برقرار اور تعمیر اور بحالی کا عمل بدستور تعطل کا شکار رہا تو اس کے سنگین نتائج رونما ہوں گے اور غزہ میں انسانی المیہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین میں کام کرنے والی 80 این جی اوز نے متفقہ طور پرایک بیان میں غزہ کی پٹی میں جاری تعمیر نوکے منصوبوں کی سست روی اور مسلسل معاشی پابندیوں کے سنگین نتائج پر خبردار کیا ہے۔ تمام تنظیموں نے متفقہ طورپر عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ اسرائیلی پابندیوں کے خاتمے اور جنگ سے تباہ ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو کے لیے فوری اور موثر اقدامات کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے محاصرے کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح میں 42 فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ 65 فی صد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں جن میں سے 38 فی صد انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ جب کہ غزہ کے 80 فی صد باشندوں کا غیرملکی امداد پر دارو مدار ہے۔ عالمی امداد میں کمی کے باعث غرب اور بے روزگاری کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے دو بڑے مسائل ہیں۔ نو سال سے غزہ کا معاشی مقاطعہ کیا گیا ہے۔ علاقے کے تمام اندرونی اور بیرونی راستے بند ہیں۔ طلباء، تاجر اور مریض سب بیرون ملک سفر کے لیے پریشان ہیں مگر بیرون ملک سفر کی اجازت بھی حاصل نہیں ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ اسرائیل کی جنگیں ہیں۔ سنہ 2014ء کو غزہ کے علاقے پر 51 دن تک صہیونی فوج نے آگ برسانے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں نہ صرف بڑی تعداد ہزاروں بے گناہ شہری شہید اور زخمی ہوئے بلکہ علاقے کا بنیادی ڈھانچہ جن میں خاص طور پراسپتال ، اسکول اور دیگر پبلک املاک تباہ یا ناکارہ ہوگئیں۔ ہزاروں فلسطینی خاندان اسرائیلی فوج کی مسلسل بمباری سے بے گھر ہوئے۔ عالمی برادری کی جانب سے فراہم کردہ امداد سے ابھی تک گھروں سے محروم ہونے والے فلسطینیوں کی بحالی ممکن نہیں ہوسکی۔