شہریوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی منظم ریاستی دہشت گردی ہرآنے والے سال میں پہلے کی نسبت زیادہ شدت کے ساتھ جاری وساری ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے دس ماہ کے دوران قابض فوج نے سنہ 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی شہروں میں ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 51 فلسطینی شہریوں کو گولیاں مار کر شہید کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی فوج کی جانب سے منظم ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ جہاں غرب اردن، بیت المقدس، غزہ کی پٹی میں کیا جاتا ہے، اسی منظم طریقے سے سنہ1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی شہروں میں بھی کھلی دہشت گردی کا ارتکاب جاری ہے۔ صہیونی فوج کی اس دہشت گردی کا مقصد سنہ 1948ء کی عرب آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔
عبرانی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال میں اب تک شہید کیے گئے 51 فلسطینیوں میں سے 29 فلسطینی شہداء کے قتل کی نوعیت کا تعین کیا جاسکا ہے۔ دیگر شہداء کے قتل کی مکمل طور پر تحقیقات بھی نہیں کی جاسکی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست ایک طے شدہ پالیسی کے تحت اندورن فلسطین کے علاقوں میں آباد عرب آبادی پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے۔ فلسطینی شہریوں پر سماجی، سیاسی اور دیگر فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہے اور اگر کوئی فلسطینی سیاسی اور سماجی کارکن سر اٹھانے کی کوشش کرے تو اسے شہید کردیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق اور خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’امان‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال کے دوران اندرون فلسطین اسرائیلی فوجی دہشت گردی میں آٹھ خواتین سیت 49 فلسطینی شہید کیے گئے جب کہ اس پورے عرصے میں فلسطینیوں کے حملوں میں صرف ایک یہودی ہلاک ہوا ہے۔
اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں ماضی کی نسبت زیادہ تیزی اور شدت دیکھی جا رہی ہے۔ سنہ 2012ء کے دوران اسرائیلی فوج کی 789 انتقامی کارروائیوں کے دوران 68 فلسطینی شہید کیے گئے، سنہ 2013ء میں 779 فائرنگ کے واقعات میں 55 فلسطینی شہید ہوئے،2014ء میں 767 واقعات میں 60 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا جب کہ سنہ 2015ء میں فائرنگ کے 712 واقعات میں 57 فلسطینی شہید کیے گئے۔ یہ تمام شہادتیں سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہوئیں۔ دیگر فلسطینی شہروں میں اسرائیلی دہشت گردی کے واقعات اس کے اس کےعلاوہ ہیں۔ رواں سال اب تک دس ماہ میں 856 واقعات میں 51 فلسطینی شہریوں کی زندگی کے چراغ گل کیے جا چکے ہیں۔