فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت تو دنیا بھر میں ہردور میں کسی نا کسی شکل میں جاری رہتی ہے مگر فلسطینیوں کےحقوق کے بعض پاسبان ایسے بھی ہیں جن کی خدمات کو تا قیامت فراموش نہیں کیا جاسکےگا۔ ان نابغہ روزگار شخصیات میں آذر بائیجانی نژاد دانشور، مذہبی ، سماجی رہ نما اور فلسفی حیدر جمال [غایدار جاخیدوفٹیچ جمال] کی خدمات کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ روس جیسے ایک غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے مرحوم نے بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لیے لازوال خدمات انجام دیں۔
حیدر جمال حال ہی میں اس 69 سال کی عمر میں انتقال کرگئے مگر فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گی۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے حیدر جمال کی زندگی اور ان کی خدمات پر ایک مختصر رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
حیدر جمال چھ اکتوبر 1947ء کو روس کے شہر ماسکو میں پیدا ہوئے۔ حیدرایک مسلمان خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد آذر بائیجان سے تعلق رکھتے تھے جب کہ والدہ روسی تھیں۔ مگر وہ دونوں مسلمان تھے۔ والدین کا دو الگ الگ ملکوں سے تعلق حیدر جمال کی زندگی کے لیے نہایت مثبت اثرات کا حامل ثابت ہوا۔ حیدر جمال کی پرورش اس انداز میں ہوئی کہ انہوں نے کسی ایک اسلامی مذہبی مکتب فکر کے ساتھ اپنا ناطہ جوڑنے کے بجائے خود کو صرف ایک خالص مسلمان بنانے پر توجہ دی۔ وہ شیعہ ہو کربھی شیعہ نہیں تھے اور سنی ہو کر بھی سنی نہیں بلکہ ایک معتدل مسلمان رہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلمان کے مذہبی طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی۔
حیدر جمال ایک مذہبی اور سماجی رہ نما ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف بھی تھے، انہوں نے اسلام کی حقانیت کےثبوت کے لیے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتاب’اسلامی آزادی‘ اپنی نوعیت کی بہترین کتاب ہے جس میں انہوں نے اسلام کے نام منسوب ان تمام خرافات کو دلائل وبراہین کے ذریعے ثابت کیا کہ اسلام اعتدال پسندی کا دین ہے جس میں قتل وغارت گری، دہشت گردی، انتہا پسندی، دشنام طرازی کا کوئی تصور نہیں۔ فلسفی حیدر جمال ایک ایسے معاشرے میں تھے جہاں اسلام کو ایک طعنہ سمجھا جاتا ہے مگر انہوں نے اپنی تحریر اور تقاریر کے ذریعے اسلام کے خلاف ہونے والی ہرسازش کا منہ توڑ جواب دیا اور اسلام کے خلاف سازشوں کی روک تھام کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے بھرپور دفاع کی جنگ لڑی۔
حیدر جمال نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی کھل کرحمایت کی اور ظالم وغاصب قوتوں کے خلاف اپنے زبان وقلم سے زندگی بھر جہاد کرتے رہے۔ فلسطینیوں سے ان کی ہمدردی اور دوستی بے مثل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی آج بھی ان کی خدمات کو یاد کرتے ہیں۔ فلسطینیوں سے تعلق ہی کی بنیاد پرانہیں’ روس میں فلسطین دوست‘ کا لقب دیا جاتا ہے۔ وہ روس میں فلسطینیوں کے حقوق کی ایک زندہ علامت تھے۔ روس میں جہاں کہیں بھی فلسطینیوں کے حقوق اور حمایت میں آواز بلند ہوتی، کوئی احتجاجی مظاہرہ، دھرنا، ریلی یا جلوس نکالات جاتا حیدر جمال اس میں پیش پیش ہوتے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت اور صہیونی ریاست کےمظالم کے خلاف آواز بلند کرنے میں صرف کردی۔ صہیونی ریاست کے فلسطینیوں اور مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ جرائم کو جس جرات کے ساتھ روس میں حیدر جمال نے نقاب کیا اتنا کوئی تنظیم بھی نہیں کرسکی۔
عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جرائم کو بے نقاب کرنے۔ انہوں نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کیا کہ صہیونی ریاست غاصب ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی اسلامی اور تہذیب وتاریخی روایات کو مسخ کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں ملوث ہے۔ اس مجرمانہ سازش میں صہیونی ریاست کو عالمی، یورپی اور امریکا سمیت دیگر ملکوں میں موجود یہودی لابی کی بھی غیرمشروط حمایت حاصل ہے۔
اسلام کی دعوت کی تشہیر کے لیے انہوں نے کئی عالمی اور علاقائی زبانوں میں دسترس حاصل کی۔ روس کے شہر استرخان میں سنہ 1990ء میں اسلامی بیداری جماعت کی تشکیل میں بھی مرحوم کا کلیدی کردار تھا۔ اسی عرصے میں انہوں نے’توحید‘ کے نام سے ایک انفارمیشن مرکز قائم کیا۔ سنہ 1991ء سے 1993ء کے دوران جریدہ ’الوحدہ‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں سنھبالیں۔ سنہ 1996ء میں ٹی وی چینلوں پر اسلامی پروگرامات پیش کرنا شروع کیے۔ روس کے ٹی وی ون پر’ابھی‘ کے نام سے پروگرام شروع کیا۔ روس کے ایک ثقافتی ٹی وی پر’آیات قرآنی‘ کے نام سے بھی ایک پروگرام کی میزبانی کی۔ اس کے علاوہ روس کے ٹی وی ’آر ٹی آر‘ پر ‘ایک ہزار دن‘ کے عنوان سے پروگرام پیش کرتے رہے۔ اپنے ان پروگراموں ، تحریروں، تقاریر اور دیگر تمام سرگرمیوں کے ذریعے اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل رہے۔