چهارشنبه 30/آوریل/2025

محنت کر، حسد نہ کر

جمعہ 30-دسمبر-2016

اگر گائوں کا چوہدری اپنے مزارع پر غیر معمولی طور پر مہربان ہو، اس کے ناز نخرے اٹھائے اور صبح، شام اس سے اپنی بے عزتی بھی کروائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری اس کا ’’کانا‘‘ ہے اور اس کی کوئی کمزوری مزارع کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ گلوبل ویلج کے چوہدری امریکہ بہادر اور اسرائیل کے تعلقات دیکھ کر بھی کچھ ایسا ہی گمان ہوتا ہے۔ ہر ملک کا سربراہ اپنے عوام کے جان و مال کے تحفظ کا دم بھرتا ہے مگر امریکہ وہ واحد ملک ہے جس کا صدر ری پبلکن پارٹی سے ہو یا ڈیموکریٹک پارٹی سے، اسے اسرائیل کی سلامتی اور دفاع کے تحفظ کی یقین دہانی کروانا پڑتی ہے۔ عرب۔اسرائیل جنگ کے بعد اب تک امریکی امداد وصول کرنے والے ممالک میں اسرائیل ہمیشہ سے سرفہرست رہا ہے اور مالی امداد کے علاوہ بھی اسرائیل کو بے شمار مراعات حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی امداد حاصل کرنے والے ممالک کو یوایس ایڈ سہ ماہی اقساط کی صورت میں دی جاتی ہے مگر اسرائیل کو سالانہ امداد سال کے آغاز میں ہی پیشگی دیدی جاتی ہے۔ اسرائیل یہ امداد وصول کرنے کے بعد اسے بنک میں ہی جمع کروا دے تو ایک خطیر رقم منافع کی صورت میں حاصل کر سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی ادارہ اپنے ملازم کو پورے سال کی تنخواہ یکم جنوری کو یکمشت ادا کر دے۔

امریکہ جس ملک کو امداد فراہم کرتا ہے اس کا حساب کتاب لیا جاتا ہے کہ رقم اسی مد میں ہی کہاں اور کیسے خرچ کی گئی مگر اسرائیل کو دی جانے والی امداد کا کوئی حساب کتاب نہیں لیا جاتا اور یہ نگرانی بھی نہیں کیا جاتی کہ امداد اسی مد میں استعمال ہوئی یا کسی اور جگہ خرچ کی گئی۔ امریکی قوانین کے مطابق دفاعی امداد حاصل کرنے والا ہر ملک اس رقم کو امریکہ میں خرچ کرنے یعنی دفاعی آلات اور اسلحہ امریکہ سے خریدنے کا پابند ہے مگر اسرائیل کو یہ رعایت حاصل ہے کہ وہ فوجی امداد اپنے ہی ملک میں خرچ کر سکتا ہے۔ امریکہ اپنی نیٹو اتحادیوں کو بھی انٹیلی جنس شیئرنگ کی سہولت فراہم نہیں کرتا مگر اسرائیل کو امریکی انٹیلی جنس سسٹم تک غیر معمولی رسائی حاصل ہے۔ اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے سی آئی اے میں اپنے جاسوسوں کا نیٹ ورک بنا لیا۔ جوناتھن پولارڈ اور لیری فرینکلن جیسے لوگ حساس دستاویزات امریکی سفارتکاروں کو فراہم کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مگر ان واقعات کے نتیجے میں صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف تحریک مزاحمت شروع کی اور یہودی آبادیوں پر چھوٹے میزائل پھینکے جانے لگے تو امریکہ نے آئرن ڈوم کی صورت میں ایسا دفاعی نظام تشکیل دیا جس سے اسرائیل کی طرف پھینکے جانے والے میزائل راستے میں ہی اچک لئے جاتے اور اپنے ہدف تک نہ پہنچ پاتے۔ اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس کی وجہ سے امریکی سلامتی خطرے میں ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کے عرب دنیا سے تعلقات خراب ہوئے اور اسرائیل وہ واحد ملک ہے جو غیر مشروط دوستی کے باجود امریکہ کی جاسوسی کرتا ہے مگر امریکی عنایات کا سلسلہ بلا توقف جاری رہا۔

اسرائیل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ قراردادیں اس کے خلاف پیش ہوئیں۔ مثال کے طور پر 2015ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو دنیا بھر کے تنازعات سے متعلق صرف 3 قراردادیں ایجنڈے میں شامل تھیں جبکہ صرف اسرائیل کے خلاف 20 قراردادیں کارروائی کا حصہ تھیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب بھی اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد آئی، امریکہ نے ‘ویٹو’ کا حق استعمال کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔

1982ء سے 2016ء تک قومی سلامتی کے دیگر چار مستقل ارکان نے مجموعی طور پر صرف27 قراردادیں ویٹو کیں جبکہ اس دوران امریکہ نے اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی 39 قراردادیں مسترد کیں۔ چند روز قبل اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش ہوئی جس میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل آبادکاری کی مذمت کی گئی تھی۔ یہ قرارداد مصر نے تیار کی تھی لیکن نو منتخب امریکی صدر کے دبائو پر جنرل سیسی نے یہ قرارداد پیش نہ کرنے کا وعدہ کر لیا۔ البتہ وینزویلا، ملائیشیا، سینی گال اور نیوزی لینڈ سمیت چند ممالک نے اپنی طرف سے یہ قرارداد پیش کر دی۔ امریکہ نے اس قرارداد کو ‘ویٹو’ نہ کیا اور رائے شماری میں بھی حصہ نہ لیا، یوں یہ قرارداد منظور ہو گئی۔ اسرائیل نے طیش میں آ کر امریکہ سمیت 14 ممالک کے سفیروں کو طلب کر لیا اور اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے درمیان لفظوں کی جنگ چھڑ گئی۔ جان کیری نے کہا کہ اچھا دوست وہی ہوتا ہے جو اپنے دوست کو سچ بتائے اور خطرات سے آگاہ کرے۔ جس پر نیتن یاہو نے جواب دیا کہ دوست، دوستوں کو سلامتی کونسل نہیں لے جایا کرتے۔

جو دوست اس لفظی جنگ پر بغلیں بجا رہے تھے،ان کی ’’خارش‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو یہ پیغام دے کر بڑی حد تک دور کر دی ہے کہ میرے آنے تک حوصلہ رکھو، میں حلف اٹھانے کے بعد کسی کو اسرائیل سے ہتک آمیز رویہ اختیار نہیں کرنے دونگا۔ ویسے بھی امریکہ وہ ہاتھی ہے جو کھانے اور دکھانے کے لئے الگ الگ دانت رکھتا ہے اور سجی دکھا کر کھبی مارنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہی اوباما جن کے روپ میں ہمارے دوستوں کو ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ دکھائی دے رہا ہے انہوں نے ہی 14 ستمبر 2016ء کو اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت آئندہ دس سال کے دوران اسرائیل کی فوجی امداد 27 فیصد بڑھا دی گئی اور طے ہوا کہ اب امریکہ 3.1 بلین ڈالر کے بجائے سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد دے گا اور 5 ارب ڈالر میزائل ڈیفنس سسٹم کے لئے دیئے جائیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکہ اپنے بگڑے ہوئے بچے اسرائیل کو بدستور اپنا باپ بنائے رکھے گا۔

ہو سکتا ہے امریکہ، اسرائیل کا ’’کانا‘‘ ہو مگر اسرائیل نے امریکی معاشرے میں سرایت کرکے اپنی مضبوط لابی تشکیل دینے پر محنت کی اور ہمارے مہرباں یہود وہنود کی سازشوں کا رونا روتے اور سازشی تھیوریوں کا ورد کرتے رہے۔ گزشتہ روز بھی ایک قاری نے گریٹر اسرائیل کے مبینہ فتنے سے متعلق تشویش کا اظہار کیا تو میں نے بصد احترام یہی عرض کیا کہ حسد نہ کرمحنت کر۔ بشکریہ روزنامہ ‘جنگ’

لینک کوتاه:

کپی شد