کپڑوں میں لپٹے چہرے، سینہ چیر دینے والی چیخوں کی آوازیں، ہاتھوں اور پاؤں میں بیڑیا، گندے فرش پر پڑے قید، کوڑوں کی ضربیں سہتے سیاسی کارکن، یہ ہے وہ تصویر جو فلسطینی اتھارٹی کے بدنام زمانہ عقوبت خانے’اریحا‘ کے اندر سے دیکھی جاسکتی ہے۔ اس عقوبت خانے میں سیاسی قیدیوں پر مظال کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں جس کی بنا پر اسے’فلسطین کا گوانتا نامو قید خانہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے فلسطینی اتھارٹی کے چہرے پر بدنما داغ کی شکل اختیار کرنے والے اریحا عقوبت خانے پر ایک ویڈیو کی شکل میں روشنی ڈالی ہے۔
اس جیل کا ایک بڑا حصہ صرف سیاسی قیدیوں کے لیے مختص ہے۔
سنہ 2006ء میں اسرائیلی فوج نے اس جیل پر دھاوا بولا اور وہاں پر قید کیے گئے فلسطینی رہ نما احمد سعدات سمیت کئی اہم کارکنوں کو اٹھا لیا گیا۔
اریحا کے عقوبت خانے میں پابند سلاسل سیاسی قیدیوں پرہولناک تشدد اب روز کا معمول بن چکا ہے اور اس تشدد میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی گماشتے ملوث ہیں۔
یکے بعد دیگرے فلسطینی پولیس اہلکار اور انٹیلی جنس حکام فلسطینی سیاسی کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ جب بھی کوئی قیدی ایک بار کےتشدد سے سانس بحال کرتا ہے تو فلسطینی انٹیلی جنس عناصر اس پردوبارہ پل پڑتے ہیں۔
کوڑوں سے قیدیوں کو تشدد کرنے کے ساتھ ظالمانہ انداز میں انہیں بیٹھنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔
تنگ وتاریک کوٹھڑیوں میں بند کرنے، گیلے اور ٹھنڈے فرش پر رہنے پرمجبور کرنا اور کمروں میں سردی میں ائیر کنڈیشن چلانا۔
قیدیوں سے ان کے اہل خانہ کی ملاقاتوں پر پابندی۔
انہیں گالیاں بکنا۔
قیدیوں کو خود کو گالیاں دینے اور لعن طعن پر مجبور کرنا۔
مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روکنا۔
جیسی سزائیں اریحا کے بدنام زمانہ عقوبت خانے کی پہچان ہیں۔ کیا اب بھی اس تاریک زنداں کے بند کیے جانے کا وقت نہیں آ پہنچا۔