فلسطین میں یہودی توسیع پسندی اور اسرائیل کی غیرقانونی آباد کاری پر نظر رکھنے والے ایک تھینک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال [2017ء] کے آخر تک فلسطین میں یہودی آباد کاروں کی تعداد 8 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔
’القدس ایپلائیڈ ریسرچ انسٹیٹوٹ ولینڈ ریسرچ سینٹر‘ [اریج] کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس رفتار سے اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے منصوبوں پرکام جاری رکھےہوئے ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست رواں سال کے اختتام تک مزید لاکھوں یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کی تیاری کررہا ہے۔
یہ رپورٹ ایک سیمینار میں پیش کی گئی جس میں یورپی یونین کے سفارت کار اور فلسطینی اتھارٹی کے ہاں متعین عرب اور دوسرے ملکوں کے سفارتی مندوبین بھی موجود تھے۔
’اریج‘ ریسرچ سینٹر کے چیئرمین جاد اسحاق نے بتایا کہ سنہ 1992ءاور اوسلو معاہدے کی منظوری سے پیشتر غرب اردن میں یہودی کالونیوں کا کل رقبہ 77 کلو میٹر پر مشتمل تھا اور اس وقت ان کالونیوں میں 2 لاکھ 48 ہزار یہودی آباد تھے۔ سنہ 2016ء کے آخر تک یہودی کالونیوں کے رقبے میں 156 فی صد اضافہ ہوا اور یہودی کالونیوں کے زیرتسلط فلسطینی رقبہ 77 مربع کلو میٹر سے بڑھ کر 197 مربع کلو میٹر تک جا پہنچا اورآج یہاں پر سا لاکھ 63 ہزار یہودی آباد ہیں۔ سنہ 1992ء کے بعد غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
انہوں نے خبردار کیاکہ صہیونی حکومت یہودی آباد کاروں کی قدرتی افزائش نسل کو ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طورپر استعمال کرتےہوئے فلسطین میں یہودیوں کی توسیع پسندی کے منصوبےآگے بڑھا رہی ہے۔
جاد اسحاق نے بتایا کہ صہیونی ریاست یہودی آباد کاری کی شرح میں قدرتی شرح نمو کے بجائے ہنگامی طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ قدرتی طریقے سے یہودی آباد کاروں کی تعداد میں دو فی صد اضافے کا امکان ہے جب کہ ہنگامی انداز میں یہودیوں کی تعداد میں اضافے سے یہ شرح 4.3 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔