ترکی کے شہر استنبول میں گذشتہ روز شروع ہونے والی بیرون ملک عالمی فلسطین کانفرنس میں دنیا بھر کے 50 ممالک کے ہزاروں مندوبین اور کارکنان شرکت کررہے ہیں۔ بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کی یہ اب تک کی سب سے بڑی کانفرنس قرار دی جا رہی ہے جس میں بڑی تعداد میں فلسطینی شریک ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کانفرنس کے میزبان ھشام ابو محفوظ نے کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو فلسطینی قوم کو اپنی مرضی کی وصیتیں دینے اور فلسطینیوں پر مشورے مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں۔ فلسطینی قوم کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہرسطح پر جدو جہد کرنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے بیرون ملک کانفرنس کے انعقاد کو فلسطینی قوم کے جذبہ صادق کا عکاس قرار دیا اور کہا کہ یہ کانفرنس اس بات کا اظہار ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے فلسطینی اپنے بنیادی مطالبات، حقوق، حق خود ارادیت، وطن اور مقدسات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ فلسطینی بیرون ملک مقیم ہونے کے باوجود تحریک آزادی کے قافلے کا حصہ رہیں گے۔ بیرون ملک فلسطینی قوم کی جدو جہد فلسطینی ریاست کے قیام اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنائے جانے تک جاری رہے گی۔
ابو محفوظ نے کہا کہ بیرون ملک کانفرنس نے فلسطینی قوم کو ایک بار پھر جسد واحد بنا دیا ہے۔ پچاس ممالک میں پھیلے فلسطینی آج ایک فورم میں ایک چھت کے نیچے ایک ہی مشن، مطالبے اور ایک ہی جیسے حقوق کے حصول کے لیے جمع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کئی تاریخی لمحات سے گذرچکا۔ فلسطینی قوم کو ہمہ نوع چیلنجز اور خطرات بھی درپیش ہیں، قوم کے ہرطبقہ فکر کے افراد نے لازوال قربانیاں پیش کی ہیں۔ اندرون فلسطین اسرائیلی مظالم کا سامناکرنے والی فلسطینی قوم بیرون ملک بھی کئی مسائل اور چیلنجز کا سامنا کررہی ہے۔ عراق اور شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے مسائل بھی کم فکر انگیز نہیں ہیں۔
انہوں نے عرب ممالک، عالم اسلام اور زندہ ضمیر قوتوں کے لیے اپنے پیغام میں کہا کہ فلسطینی قوم دنیا سے انصاف اور اپنے سلب شدہ حقوق مانگتے ہیں۔ فلسطینیوں کے دیگر تمام حقوق میں ایک اہم حق ’وطن واپسی‘ کا حق ہے۔ یہ کانفرنس فلسطینیوں کے حق واپسی کے مطالبے کا پرزور اعادہ کرتی ہے۔
ابو محفوظ نے فلسطینی قوم کو درپیش مشکلات، فلسطین کی تاریخ اور عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو اٹھانے کے لیے سیرحاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ بعض عالمی طاقتیں مسئلہ فلسطین کو آج ایک بار پھر سردخانے کی نذر کرنا چاہتی ہیں۔ فلسطینی قوم کو اس کے حقوق سے محروم کرنے کی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے فلسطینی دھڑوں کے درمیان باہمی اتفاق واتحاد کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ قومی حقوق کے دفاع کے لیے فلسطین کے قومی اداروں کو بھی فعال اور موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
اوسلو معاہدے نے فلسطینی قوم کو نقصان پہنچایا
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل کونسل کے سابق رکن اور کانفرنس کے چیئرمین ڈاکٹر انیس قاسم نے کہا کہ فلسطینیوں کے ایک مخصوص گروپ نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اوسلو معاہد کیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی قوم کو راستے کی ایک طرف پھینک دیا گیا اور ہمیں فلسطینی پروگرام سےمستنثنیٰ کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ جتنا نقصان فلسطینی کاز کو اوسلو معاہدے سے پہنچا کسی اورسازش سے نہیں پہنچا۔ اس لیے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین کا اصل کردار بحال کیا جائے۔ ہم ایک ایسی تنظیم آزادی کےخواہاں ہیں جوتمام فلسطینیوں کی نمائندہ ہو۔ فلسطینی جہاں بھی ہوں وہ ان کے حقوق کی ترجمان بنے۔ کسی ایک فلسطینی رہ نما ، جماعت یا گروہ کو فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کا حق نہیں۔
ڈاکٹر انیس قاسم نے کہا کہ جس طرح اوسلو معاہدے نے مسئلہ فلسطین کو تباہ کیا۔ اسی طرح اب اس کی تباہی کے لیے کام کی ضرورت ہے۔ اس معاہدے نے فلسطینی تحریک آزادی اور انقلاب کو صہیونی ریاست کے تابع کردیا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کی جنرل باڈی کے چیئرمین سلمان ابو ستہ نے کہا کہ فلسطینی قوم کے حقیقی خادم وہ ہیں جنہیں عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوسلو معاہدہ ‘معاہدہ بالفور‘ کا نیا ایڈیشن ہے جس نے فلسطین کا نام ہی حذف کردیا۔ اس معاہدے نے قابض ریاست کے خلاف جدو جہد کے کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل کاخدمت گار بنا دیا۔