فلسطین کا علاقہ ’غزہ پٹی‘ سنہ 2006ء میں اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے غیض وغضب کا نشانہ بنا جب فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت نے تحریک فتح کو پارلیمانی انتخابات میں مسترد کرتے ہوئے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔
سنہ2006ء کے بعد آج تک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل مل کرغزہ کی پٹی کے عوام پرعرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہیں۔ حماس کے تمام تر لچک دار رویے اور مفاہمتی پالیسی کو رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے دیوار پردے مارا ہے۔
حماس کو انتخابات میں ووٹ دینے کی سزا غزہ کے ڈٰیڑھ ملین عوام کو دی جا رہی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کبھی غزہ کی پٹی کو خوراک کی سپلائی بند کردیتی ہے اور کبھی ایندھن کی سپلائی روک دیتی ہے۔ کبھی ملامین کی تنخواہیں روک دی جاتی ہیں اور کبھی محصورین غزہ پر بھاری ٹیکس عاید کرکے ان کی معاشی کمر توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
چند روز قبل صدر عباس کے براہ راست حکم پر غزہ کے چالیس ہزار سے زاید سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فی صد کمی کردی گئی۔
حال ہی میں غزہ کو بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن کی فراہمی روک دی گئی۔ غزہ کے شہریوں کے بجلی کے بل تین گنا مہنگے کردیے۔
اس پربھی اکتفا نہ کیا اور صدر عباس نے دھمکی دی کہ وہ 25 اپریل کے بعد غزہ کے خلاف مزید سخت ترین اقدامات کا اعلان کریں گے۔
صدر عباس کے چہتے نام نہاد چیف جسٹس محمود الھباش نے تو یہاں تک ترغیب دی کہ غزہ ایک باغی علاقہ ہے اور اسے مسجد ضرار کی طرح تہس نہس کردیا جائے۔ غزہ کے دو ملین عوام یہ پوچھنے میں حق بہ جانب ہیں کہ آیا فلسطینی اتھارٹی ان کی نمائندہ ہے یا قابض صہیونی ریاست کی ایجنٹ بن گئی ہے۔ کیونکہ غزہ کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی پالیسی تو صہیونی ریاست نے اپنا رکھی ہے۔