جمعه 15/نوامبر/2024

27 فلسطینی صحافی اسرائیلی زندانوں میں قید!

بدھ 19-اپریل-2017

اسرائیلی ریاست کے عقوبت خانوں میں جہاں دیگرتمام طبقات کے فلسطینی شہری پابند سلاسل ہیں وہیں 27 فلسطینی بھی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دیتے اور صہیونی ریاست کے جنگی جرائم بے نقاب کرنے کی پاداش میں دشمن کی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔

اس رپورٹ میں ابلاغی پیشہ وارانہ خدمات انجام دیتے ہوئے صہیونی زندانوں میں ڈالے جانے والے فلسطینی صحافیوں کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ فلسطینی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ’یوم اسیران‘ کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی صحافیوں کو باضابطہ قید، انتظامی حراست اور گھروں پر جبری نظربندی جیسی سزائیں صہیونی ریاست کا دل پسند مشغلہ ہے۔

صحافیوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کا اصل ہدف صہیونی فوج کے نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پران کی زبان بند کرنا اور انہیں دنیا کو فلسطین میں رونما ہونے والے حقائق سے آگاہی سے روکنا ہے۔

فلسطینی وزارت اطلاعات کی طرف سے صحافیوں کو نام نہاد الزامات اور مقدمات کے تحت زندانوں میں ڈالنے کی اسرائیلی پالیسی کو عالمی قوانین اور آزادی اظہار رائے کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے صہیونی ریاست کی پالیسی کی شدید مذمت کی ہے۔ وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں صحافتی برادری کے ساتھ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ فلسطینی قوم نازک دور سے گذر رہی ہے۔ اس کے تمام نمائندہ طبقات کے شہریوں حتیٰ کہ صحافیوں کو بھی پابند سلاسل کیا گیا ہے۔

اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینی صحافی

محمود عیسیٰ

محمود عیسیٰ کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس شہر سے ہے۔ قابض صہیونی فوج نے اسے پہلی بار 3 جون 1993ء کو ’اوسلو‘ معاہدے سے بھی پہلے حراست میں لیا۔ عیسیٰ ان صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہیں صہیونی ریاست کی طرف سے طویل ترین قید کی سزاؤں کا سامنا ہے۔ محمود عیسیٰ کو تین بار عمر قید اور 46 سال اضافی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

محمود عیسیٰ اخبار’صوت الحق والحریہ‘ کے نامہ نگار کے ساتھ ساتھ اس کےایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ اخبار مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے علاقوں سے شائع ہوتا ہے۔

محمود عیسیٰ نہ صرف ایک صحافی ہیں بلکہ وہ ایک ادیب اور دانشور ہیں۔ انہوں نے دوران حراست کئی کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں ’تاملات قرآنیہ‘ ’وفا وغدر‘ اور ’حکایۃ الصابر‘ زیادہ مشہور ہوئیں۔ ان کی پہلی کتاب ’مزاحمت بین النظریہ والتطبیق‘ سنہ 1990ء کے اواخر میں اس وقت منظرعام پرآئی جب وہ جیل میں قید تھے۔ انہوں نے میکاولی کے نظریات پر بھی ایک تنقید جائزہ بھی لکھا ہے۔

صلاح عواد

اسیر صلاح عواد کو اسرائیلی فوج نے 12 اپریل 2011ء کو حراست میں لیا۔ عواد کلب برائے اسیران کے شعبہ اطلاعات کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہیں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

احمد الصیفی

صحافی احمد الصیفی کی گرفتاری 19 اگست 2009ء کو اس وقت عمل میں لائی گئی جب وہ بیرزیت یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے طالب علم تھے۔ انہیں اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا اور نام نہاد الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کے بعد انہیں 19 سال قید کی سزا کا حکم دیا گیا۔

اس دوران انہوں نے غزہ کی پٹی میں قائم اسلامی یویورسٹی میں بھی پرائیویٹ طور پر تاریخ کے مضمون میں داخلہ بھیجا۔

صحافی محمد عصیدہ

محمد عصیدہ کو 15 اکتوبر 2015ء کو حراست میں لیا گیا۔ عصیدہ کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس سے ہے۔ اس نے جامعہ النجاح سے ابلاغیات میں گریجو ایشن کررکھی ہے۔ صہیونی حکام کی طرف سے اسے 18 ماہ کی باضابطہ قید کی سزا سنا رکھی ہے۔

ڈیڑھ سال قید مکمل کرنے کے بعد صہیونی حکام نے اس کی مدت حراست میں مزید چھ ماہ کا اضافہ کردیا تھا۔ عصیدہ شادہ شدہ ہیں اور اس کےدو بچے ہیں۔

ھمام عتیلی

 ھمام عتیلی کو 8 دسمبر 2015ء کو حراست میں لیا گیا۔ عتیلی جامعہ النجاح میں ریڈیو و ٹیلی ویژن کے شعبے کے طالب علم ہیں۔ وہ متعدد بار حراست میں لیے جا چکے یں۔ 5 مارچ 2017ء کو صہیونی عدالت نے اسے 30 ماہ قید اور 2000 شیکل جرمانہ کہ سزا سنائی تھی۔

اسیر سامرابو عیشہ

صحافی سامنی ابو عیشہ کو اسرائیلی فوج نے 6 جنوری 2016ء کو گرفتار کیا اور اسے 20 ماہ قید کی سزا کا حکم دیا گیا۔ اس کی سزا 10 اکتوبر 2016ء کے بعد شروع کی گئی حالانکہ اس کی گرفتاری دس ماہ پہلے عمل میں لائی گئی تھی۔ ابو عیشہ پر صہیونی ریاست کے خلاف تشدد پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔

صحافی ابراہیم ابو صفیہ

ابراہیم ابو صفیہ کو 28 ستمبر 2016ء کو حراست میں لیا گیا۔ اس نے یونیورسٹی کی تعلیم جامعہ بیرزیت سے حاصل کی اور ایک فری لانس صحافی کے طور پر کام شروع کیا۔ اسے سرائیل کی عوفر فوجی عدالت نے 22 دسمبر 2016ء کو نو ماہ قید کی سزا کا حکم دیا۔

صالح الزغاری

فوٹو جرنلسٹ صالح الزغاری کو 8 فروری 2017ء کو بیت المقدس سے حراست میں لیا گیا اور اسے 8 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اس پر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ میں یہویوں کی نقل وحرکت کی تصاویر بنانے اور صہیونی انتظامیہ کے خلاف پرتشدد کارروائیوں پر اکسانے کا الزام عاید کیا گیا۔

حسن الصفدی

صحافی حسن الصفدی کو یکم مئی 2016ء کو گرفتار کیا گیا۔الصفدی انسانی حقوق کی تنظیم ’ضمیر فاؤںڈیشن‘ کے شعبہ اطلاعات کا کوآرڈینیٹر ہے۔ اس نے صہیونی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں پر مظالم کو آڈیو اور ویڈیو میں محفوظ کرنے کی تربیت حاصل کی۔ اسے بغیر کسی الزام کے دو بار گرفتار کیا گیا اور ہر بار اسے چار چار ماہ تک حراست میں رکھا گیا۔ بیت المقدس کے رہائشی حسن الصفدی کو 2015ء میں بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد 38 دنوں تک اسیر کے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

صحافی محمد القدومی

محمد القدومی کو 14 جنوری 2016ء کو گرفتار کیاگیا۔ القدومی بیرزیت ریسرچ اینڈ اسٹڈی سینٹر سے کا محقق ہے۔ اسے بغیر کسی الزام کے انتظامی حراست میں ڈال دیا گیا۔

نضال ابو عکر

قابض صہیونی فوج نے نضال ابو عکر کو 9 اگست 2016ء کو حراست میں لیا۔ ابو عکر فلسطین کے ’الوحدہ‘ ریڈیو کے ڈائریکٹر ہیں اور فلسطینی اسیران کے حوالے سے ’ان کے زندان‘ کے عنوان سے ایک پروگرام بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ انہں 31 جنوری 2017ء کو دوسری بار انتظامی حراست کی چھ ماہ کی سزا سنائی گئی۔

اسامہ شاہین

صحافی اسامہ شاہین کو قابض فوج نے یمم ستمبر 2016ء کو حراست میں لیا۔ شاہین فلسطینی اسیران اسٹڈی سینٹر سے وابستہ ہیں اور شعبہ اسیران کے امور کے انچارج ہیں۔ صہیونی انتظامیہ نے انہیں 20 ستمبر 2016ء کو چار ماہ انتظامی حراست کی سزا سنائی جس کے بعد 30 دسمبر 2016ء کو اس میں مزید چار ماہ کی توسیع کردی گئی۔ شاہین کا آبائی تعلق غرب اردن کے الخلیل شہر سے ہے اور وہ کئی بیماریوں کا بھی شکار ہے۔

محمد القیق

صحافی محمد اسامہ القیق کو اسرائیلی فوج نے 15 جنوری 2017ء کو حراست میں لیا۔ القیق سعودی عرب کے’المجد‘ ٹی وی چینل کے نامہ نگار ہیں۔ انہیں صہیونی انتظامیہ کی طرف سے مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں تین ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔ انہوں نے بلا جواز قید کے خلاف 33 دن مسلسل بھوک ہڑتال کی۔ الخلیل کے رہائشی القیق شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے ہیں۔

ھمام حنتش

صحافی ھمام الحنتش کو 15 فروری 2017ء کو گرفتار کیا گیا۔ حنتش فری لانس صحافی ہیں اور مقامی ابلاغی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انہیں صہیونی عدالت سے 6 ماہ کی انتظامی قید کی سزا سنائی گئی۔

صحافی بسام السائح

اسیر صحافی بسام السائح کو اسرائیلی فوج نے 8 اکتوبر 2015ء کو حراست میں لیا۔ اس کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب وہ اپنی اسیرہ اہلیہ منیٰ ابو بکر کے مقدمہ کی سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

السائح ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عارضہ قلب کا بھی شکار ہیں۔

ھادی صبارنہ

صحافی ھادی صبارنہ کو اسرائیلی فوج نے 11 اگست 2016ء کو حراست میں لیا۔ صبارنہ ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ ان کا تعلق الخلیل شہر سے ہے۔اسرائیلی فوج ان کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہے تاہم فی الحال مقدمہ کی سماعت ملتوی کردی گئی ہے۔

اسیر احمد الدراویش

احمد الدراویش کو 31 اگست 2016ء کو حراست میں لیا گیا۔ الدراویش سنابل ریڈیو کے ڈائریکٹر ہیں۔ الخلیل سے تعلق رکھنے والے الدراویش کو انتظامی حراست کی سزا سنائی گئی جس میں متعدد بار توسیع کی جا چکی ہے۔

صحافی محمد الصوص

محمد الصوص کی گرفتاری 31 اگست 2016ء کو عمل میں لائی گئی۔ الصوص سنابل ریڈیو کے پیش کار ہیں۔ ان کے اس ریڈیو چینل پر اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلانے کے الزام میں گذشتہ برس سیل کردیا گیا تھا اور اس کی نشریات بند کردی گئی ہیں۔

نضال عمرو

نضال عمرو بھی ’سنابل‘ ریڈیو سے وابستہ ہیں۔ انہیں 31 اگست2016ء کو حراست میں لیا گیا۔ عمرو ریڈیو کے نامہ نگار کے طور پر کام کررہے تھے۔ انہیں بھی انتظامی حراست کی پالسیسی کے تحت پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔ آخری بار اس کی مدت حراست میں 9 دسمبر 2016ء کو توسیع کی گئی تھی۔

منتصر نصار

صحافی منتصر نصار کو 31 اگست 2016ء کو حراست میں لیا گیا۔ نصار بھی اسرائیلی فوج کے زیرعتاب ’سنابل‘ ریڈیو سے وابستہ ہیں۔ انہں 9 دسمبر 2016ء کو آخری بار انتظامی حراست کی سزا سنائی گئی تھی۔

حامد النمورہ

سنابل ریڈیو سے وابستہ حامد النمورہ کو صہیونی فوج نے 31 دسمبر 2016ء کو حراست میں لیا، ان کے خلاف اسرائیل کے خلاف تشدد پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس مقدمہ کی 15 بار مسلسل سماعت ہوچکی ہے۔ ہر چالیس دن کے بعد ان کی مدت حراست میں مزید چالیس دن کی توسیع کردی جاتی ہے۔

عبداللہ شتات

صحافی عبداللہ شتات کو 26 فروری 2017ء کو حراست میں لیا گیا۔ عبداللہ شتات فلسطینی اسیران کے لیے سرگرم سماجی کارکنان میں بھی متحرک رہے ہیں۔ ان کا تعلق غرب اردن کے شمالی شہر سلفیت کے بدیا قصبے سے ہے۔

مصعب سعید

صحافی مصعب سعید بھی اسیران کے لیے سرگرم ابلاغی اداروں میں کام کرتے ہیں اور سابق اسیر ہیں۔ دو بچوں کے والد سعید کا تعلق رام اللہ کے نواحی علاقے بیرزیت سے ہے اور اسے 12 مارچ 2017ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔

صحافی محمد البطروخ

محمد البطروخ’احداث فلسطین‘ نیٹ ورک اور ’منبر القدس‘ کے نامہ نگار ہیں۔ انہیں 7 مارچ 2017ء کو حراست میں لیا گیا۔ یہ ان کی پہلی گرفتاری نہیں بلکہ وہ اس سے قبل چار بار گرفتار کیے جاتے رہے ہیں۔

عاصم مصطفیٰ الشنار

صحافی عاصم مصطفیٰ الشنار جامعہ النجاح میں شعبہ ابلاغیات کے طالم علم ہیں۔20 سالہ الشنار کو اسرائیلی فوج نے 14 مارچ2017ء کو گرفتار کیا تھا۔

اسیر یوسف شلبی

یوسف شلبی کی گرفتاری 23 مارچ 2017ء کو عمل میں لائی گئی۔ وہ ایک فری لانس صحافی ہیں اور عرب ، امریکن یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے فارغ التحصیل ہیں۔

اسیر ایوب معزوز صوان

ایوب معزوز صوان کو 26 مارچ 2017ء کو حراست میں لیا گیا۔ وہ لیبیا کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔لیبیا میں حالات خراب ہونے کے بعد واپس فلسطین آگئے تھے جہاں حال ہی میں اسرائیلی فوج نے انہیں حراست میں لے لیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی