شنبه 03/می/2025

غزہ میں پھولوں کا جزیرہ اور رنگوں کا ساحل!

ہفتہ 22-اپریل-2017

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں جہاں چار سو صہیونی ریاست کی مسلط کی گئی تباہ کن جنگوں کی بربادی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں وہیں غزہ میں عزالدین ابو سویرح جیسے زندہ دلان بھی بستے ہیں جو غزہ کو ویرانی سے نکال کر گل گذار بنانے کی مساعی جمیلہ میں مصروف عمل ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کے ساحلی علاقے میں رنگا رنگ پھولوں کا یہ باغ اپنے باغبان کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 40 سالہ عزالدین ابو سویرح گذشتہ 23 برس سے اس دل فریب مشغلے سے وابستہ ہیں۔ وہ کالج میں طالب علم تھے جب انہوں نے اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹی سی کیاری میں چند اقسام کے پھول اگانے شروع کیے۔ وقت گذرتا گیا اور ابو سویرح کا پھولوں کے ساتھ شغل بڑھتا چلا گیا۔ اس شوق نے اسے اپنے باغیچے کو ایک بڑے باغ میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آج اس کے اس پھولوں کے جزیرے میں پانچ لاکھ سے زاید انواع واقسام اور رنگ بہ رنگے پھول موجود ہیں۔

ابو سویرح کا کہنا ہے کہ وہ سال بھراپنے پھولوں کے جزیرے کو اپنا پسینہ اور وقت دیتا ہے۔ مگر اپریل کا مہینا پھولوں کے عروج کا مہینا ہوتا ہے جس میں تمام انواع کے پھلو جوبن پر ہوتے ہیں۔

پھولوں کے باغبان ابو سویرح کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے طول وعرض سے اس کے باغ کو دیکھنے لوگ آتے اور اس کی محنت کی داد دیتے ہیں۔ وہ ہرموسم میں اس موسم کے مطابق پھول اگاتا ہے اور پھولوں سے دل بہلانے والے اس کے باغ کی رونق کو بڑھاتے ہیں۔ اس کے باغ میں مقامی سطح پر مشہور جریبرا، بیتونیا اور جازانیا پھول بھی وافر مقدار میں ہوتے ہیں۔ لوگ اس کی پھولوں کی کاریوں سے پھولوں کے پودے لے کر اپنے گھروں کو بھی لے جاتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ابو سویرح نے کہا کہ آغاز میں اس نے ایک چوتھائی دونم میں اپنا کام باغ لگایا مگر اب اس کی یہ پھولوں کی نرسری 1500 مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے جس میں نصف ملین سے زاید انواع اقسام کے پھول ہیں۔

ان تمام پھولوں کی نگہداشت اور پورے باغ کی دیکھ بحال اس اکیلے کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے اس نے پانچ افراد کو ان کی نگرانی پر ملازم رکھا ہوا ہے۔ یوں یہ پیغام پانچ خاندانوں کی کفالت کا بھی ذریعہ ہے۔

ابو سوریح کا کہنا ہے کہ اس کے باغ میں امریکا اور ہالینڈ میں اگائے جانے والے نایاب پھول بھی موجود ہیں۔ باغ کے حوالے سے مشکلات کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے اگر اس کی راہ میں پابندیاں نہ ہوں تو وہ دنیا کے دوسرے خطوں میں اگنے والے پھول بھی اپنے باغ میں شامل کرسکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی