اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ہفتے کے دن کی چھٹی ختم کرنے اور ہفتے کو کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینے پر مذہبی جماعتوں پر مشتمل حکومت ایک نئی مشکل سے دوچار ہوگئی ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 2 کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے ہفتے کے دن کاروبار مراکز کھلے رکھنے کی اجازت دی ہے جس کےبعد اسرائیل کے مذہبی حلقوں میں سخت بے چینی پائی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہودی مذہبی حلقے اور مذہبی سیاسی جماعتیں ’ہفتہ‘ کے دن کو اہمیت دیتے ہیں اور اس روز سرکاری اور نجی شعبے میں عام تعطیل کی جاتی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے ایک طرف مذہبی یہودیوں کو مشتعل کیا ہے اور دوسری طرف حکومت کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
ٹی وی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے مذہبی فرقوں ’حریدیہ‘ اور مرکزی مذہبی تنظیموں کی طرف سے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو مکتوب ارسال کیا ہے جس میں ان سے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور کے لیے حکومت کا ہنگامی اجلاس بلائیں۔
یہودی مذہبی گروپوں نے وزیراعظم کو لکھے اپنے مکتوب میں ہفتے کے دن کاروباری مراکز کھلے رکھنے کی اجازت دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ہفتے کے دن سپر مارکیٹ کو کھلا رکھنے اور کمپنیوں کو چھٹی نہ کرنے کی اجازت دینا یہودیوں کی مذہبی روایات کے خلاف ہے۔
ان یہودی گروپوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ موجودہ آئین اور قانون کے تحت یہودیوں کو ہفتے کے روز کسی قسم کی کاروباری سرگرمی کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اسرائیل کے وزیر داخلہ ارییہ درعی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہفتہ مقدس اور یہودی قوم کے تشخص کی نفی کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرنے والے مذہبی رہ نماؤں سے ملاقات کرکے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے۔
سرائیلی وزیر صحت نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہودی مذہبی روایات اور اصولوں سے صریح انحراف ہے۔
ٹی وی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ فیصلے پر نظر ثانی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ سپریم کورٹ کے بیان کے بعد مذہبی حلقے مزید سیخ پا ہوگئے ہیں۔ اس طرح ہفتے کے دن کی تعطیل پراسرائیلی حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آگئے ہیں۔