غزہ کی پٹی میں فوجکشی کے دوران گرفتار کیےگئے سیکڑوں فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کے مظاہرسامنے آنے کے ایک گرفتار فلسطینی نے رہائی کے بعد لرزہ خیر انکشافات کیے ہیں۔
حکیم کے نام سےاپنی شناخت ظاہر کرنے والے تیس سالہ نوجوان نےبرطانوی ’مڈل ایسٹ آئی‘ کو دیے گئےانٹرویو میں انکشاف کیا کہ ’اسرائیلی فوجیوں نے مجھے پکڑااور بدترین طریقے سے ماراپیٹا۔ پھر مجھے شدید سردی میں ایک اسکول کے کمرے میں بند کردیا۔ میرے ساتھ کئی اورقیدی بھی تھے۔ ہم کئی روز بھوکے رہے۔ پانی تک نہیں دیا گیا‘۔
اس نے بتایا کہاسرائیلی فوج نے ایک دن مجھے بلٹ پروف جیکٹ پہننے کے بعد ایک سرنگ میں داخل ہونےپر مجبور کیا۔ انہوں نے میرے سر کے ساتھ ’گو پرو‘ کیمرہ نصب کیا اوراس کے بعد مجھےسرنگ کے اندر جانے کو کہا گیا جہاں ممکنہ طور پر بوبی ٹریپس ہوسکتے ہیں‘‘۔
یہ واقعہاسرائیلی فوج کی غزہ کی پٹی پر جارحیت کے دوران اس کی بزدلی کا بدترین ثبوت ہے جواپنے جازی جرائم کو آگے بڑھانے کے لیے فلسطینیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتیہے۔
حکیم نے گفتگوکرتے ہوئےمزید کہا کہ گرفتار کئے جانے کے بعد ہمیں ایک ایسے سرد کمرے میں بندکردیا گیا جہاں کئی روز تک پانی اور خوراک تک نہیں دی گئی۔ البتہ ہمیں مسلسلگالیاں دی جاتی ہیں۔
خود اسرائیلی فوجنے گرفتار کیے جانے کےبعد نیم برہنہ فوجیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹیں کیںاور دعویٰ کہا کہ یہ تمام حماس کے جنگجو ہیں جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
حکیم نے کہا کہاس کا کسی مسلح گروپ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی قریبی عزیز مزاحمتیفورسز میں شامل ہے۔ انہیں ایک اسکول کے صحن میں سخت سردی میں رکھا گیا۔
جرم کی تفصیلات
فلسطینی نوجوانمحمد حکیم نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے مجھے پکڑا، مجھ سے بارود باندھا اور اس کےبعد غزہ کی ایک سرنگ کے اندر داخل کردیا۔
اس نے کہا کہ وہان فلسطینیوں میں تھا جنہیں برہنہ کیا گیا تھا۔ انہیں گرفتار کیے جانے کے بعدانسانی ڈھال کے طورپراستعمال کیا گیا۔
اس نے کہا کہ ایکفوجی نے مجھے کہا کہ ہم تمہیں ایک سرنگ میں بھیج رہے ہیں۔ پھرانہوں نے مجھ سےبارود باندھا اور میرےسر کے ساتھ کیمرے لگائے اور اس کے بعد مجھے سرنگ میں داخلکردیا گیا۔