اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینی اسیران بہ یک وقت کئی کئی مصائب، مسائل اور آزمائشوں کا سامنا کر رہےہیں۔ جیل میں قید و بند، قید تنہائی، بیماریاں اور اس پر مستزاد بھوک ہڑتال، یہ سب کچھ فلسطینی اسیران کا مقدر ہے۔
ایک ہی وقت میں کئی کئی آزمائشوں سے گذرنے والے اسیران میں 38 سالہ اسیر عماد احمد السراج بھی ہے جو قید تنہائی، بیمیاری اور بھوک ہڑتال جیسے مسائل کا شکار ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسیر السراج سنہ 2004ء سے غرب اردن میں صہیونی فوج کے خلاف مزاحمت کے الزام کے تحت پابند سلاسل ہے۔
عماد اھمد السراج نہ صرف قید تنہائی اور بھوک کے عالم میں ہے بلکہ معدے کے السر جیسے خطرناک مرض کا بھی شکار ہے۔ اس نے اپنی بیماری کی حساسیت کےباوجود ’آزادی اور عزت‘ کے لیے جاری بھوک ہڑتال میں شمولیت کرکے دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ دشمن کے تمام مکروہ حربے اسیران کو اپنے حقوق کے لیے جدو جہد سے باز نہیں رکھ سکتےہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ عماد احمد السراج کے والد چار سال قبل انتقال کرگئے تھے۔ السراج اس وقت بھی جیل ہی میں قید تھے۔والد کی وفات کے بعد اب تک چار سال گذرنے کے باوجود اسرائیلی جیلروں نے اس کی بہن بھائیوں سے ملاقات پرپابند عاید کر رکھی ہے۔
بیماری اور بے دخلی
اسیر عماد احمد السراج کے بڑے بھائی 51 سالہ خالد السراج نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد کینسر کے مرض کا شکار تھے۔ چار سال قبل وہ اسی بیماری کے باعث وفات پاگئے۔ وہ عماد السراج سے ملاقات کی خواہش دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ عماد السراج کو پہلی بار صہیونی فوج نے 2000ء میں غرب اردن میں مزاحمتی کارروائیوں کے الزام میں حراست میں لیا۔ انہیں کچھ عرصے کے لیے رہا کیا گیا مگر صہیونی درندے مسلسل اس کا تعاقب کرتے رہے۔ اسے قاتلانہ حملے میں شہید کرنے کی بھی کئی بار کوشش کی۔ سنہ 2004ء میں اسے حراست میں لے کر مقدمہ چلایا گیا اور صہیونی عدالت سے اسے تا حیات عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
خالد السراج نے بتایا کہ جب عماد السراج کا تعاقب جاری تھا۔ اس دوران اسرائیلی ایجنٹوں نے اسے حراست میں لینے سے قبل زہر کھلایا جب السراج کو ایمبولینس کی مدد سے اسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی تو راستے میں ایجنٹوں کی منصوبہ بندی کے تحت ان کی ایمبولینس کو اسرائیلی فوج نے روک لیا اور اسے حراست میں لے لیا گیا۔
حال ہی میں 17 اپریل کو1500 فلسطینی اسیران نے اجتماعی بھوک ہڑتال شروع کی تو اس میں اسیر عماد احمد السراج بھی شامل ہوگئے۔
بھائی خالد السراج نے بتایا کہ ان کی والدہ سنہ 1990ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی والدہ کی وفات اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں اس وقت ہوئی جب قابض فوج نے ان کے تین بھائیوں کو حراست میں لیا اور چوتھے کی گرفتاری روکنے کے لیے اس نے مزاحمت کی۔ صہیونی فوجی دہشت گردوں نے ان کی والدہ ہو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔
قید تنہائی
بھوک ہڑتال شروع کرنے کے بعد اسیر عماد احمد السراج کو اسرائیلی فوج نے انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے نفحہ جیل میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔
عماد السراج معدے کے مریض ہیں اور اس کے معدے میں السر ہے۔ ڈاکٹروں نے معدے کی سرجری کی تجویز دے رکھی ہے مگر صہیونی انتظامیہ نہ صرف بیمار اسیر کے علاج معالجے میں مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے بلکہ الٹا اسے انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا ہے۔
خالد السراج نے بتایا کہ اس کے بھائی کی بھوک ہڑتال اور قید تنہائی میں ڈالے جانے کے بعد اس کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے السراج کی صحت کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہارکیا۔ انہوں نے کہا کہ پورے خاندان نے اسیران کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسیر عماد السراج کی قید تنہائی ختم کرانے کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کی تیاری کی ہے۔