پنج شنبه 01/می/2025

غزہ کے خلاف انتقامی سیاست ’جنگی جرائم‘!

منگل 2-مئی-2017

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے حال ہی میں یہ اعلان کیا کہ وہ غزہ کی پٹی کو اسرائیل کی پاور سپلائی لائن سے فراہم کردہ بجلی کی فنڈنگ نہیں کریں گے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی کو بجلی کل ضروریات کا 30 فی صد سپلائی کی جاتی ہے جب کہ اس وقت غزہ میں دستیاب بجلی کا 80 فی اسرائیل کی طرف سے فراہم کردہ سپلائی سے پورا ہورہا ہے۔

محمود عباس کا یہ اعلان غزہ کےدو ملین عوام کے خلاف انتقامی اور اجتماعی سزا پر مبنی ایک قابل مذمت اور ناقابل قبول اقدام ہے جس کے نتیجے میں غزہ کے عوام پہلے سے کہیں زیادہ مصائب اور مسائل کا شکار ہوں گے۔

عالمی بنک نے ہفتہ رفتہ میں ایک بیان میں خبردار کیا کہ غزہ کی پٹی کو بجلی کی سپلائی میں تعطل نتائج کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے۔ غزہ میں بجلی کی سہولت کے ساتھ ترسیل کے لیے جس نوعیت کے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے وہ نہیں بنایا جاسکا ہے۔ موجودہ بنیادی ڈھانچے کے ذریعے غزہ کی پٹی کو بجلی کی سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ محمود عباس کا یہ اعلان کہ وہ غزہ کی بجلی کی فنڈنگ نہیں کریں گے باعث تشویش ہے۔

خیال رہے کہ غزہ کا سب سے بڑا مقامی پاور پلانٹ آج تیسرے ہفتے سے مسلسل بند ہے۔ پلانٹ کو درکار ایندھن نہیں مل رہا ہے۔ پورے علاقے میں صرف اسرائیل اور مصر کی طرف سے فراہم کی گئی بجلی دستیاب ہے۔ یہ علاقے میں بجلی کی کتنی ضرورت پوری کرتی ہےاس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے 24 میں سے کل 4گھنٹے بجلی آتی ہے اور باقی اوقات میں لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔

اجتماعی سزا

انسانی حقوق کے ایک سرکردہ کارکن اور ’یورو ۔۔۔ مڈل ایسٹ آبزرویٹری‘ کے چیئرمین رامی عبدہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی اتھارٹی کا طرز عمل بے گناہ اور معصوم شہریوں کو مسائل میں الجھا کر اپنے مذموم سیاسی مفادات سمیٹنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی بارے فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی پالیسی کوجس زاویے سے بھی دیکھا جائے تو یہ ’اجتماعی سزا‘ کے سوا کچھ نہیں۔ آخر عام شہری آبادی پر معاشی بحران مسلط کرکے ان کے منہ سے نوالہ چھیننے کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق سلب کرکے اجتماعی مشکلات سےدوچار کرنا شہریوں کی باعزت زندگی کا حق سلب کرنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں بجلی کے بحران سمیت دیگر تمام بحرانوں سے کوئی ایک جماعت، طبقہ یا گروہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ ہرشعبہ ہائے زندگی کے افراد براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ غزہ کے اسپتالوں میں آنے والے مریض کیا کسی ایک جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر فلسطینی اتھارٹی کا انتقامی رویہ غزہ کےدو ملین کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔

رامی عبدہ نے بتایا کہ محمود عباس کے اقدامات غزہ میں انسانی مساوات کے بنیادی اصول پر بھی ضرب لگاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام کے بنیادی مسائل کا سب سے پہلا قصور وار اور ذمہ دار اسرائیل ہے جس نے غزہ کے عوام پر معاشی پابندیاں مسلط کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں غزہ کے عوام پرعرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار عبدالرحمان شہاب نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل کا اصل ذمہ دار ہے۔ غزہ کے عوام کے معاشی مسائل صرف اسرائیل کے پیدا کردہ ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کا کوئی احسان نہیں

فلسطینی معاشی تجزیہ نگار محمد ابو جیاب نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں جس انسانی المیے کی ہم بات سنتے آرہےتھے وہ آچکا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا انسانی المیہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت غزہ پٹی میں معیشت، صحت، سماجی شعبے سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

پورے علاقے میں بجلی نام کی کوئی چیز نہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کی پٹی میں عوام پر بجلی کے بلوں میں غیرمعمولی اضافہ کردیا ہے۔ یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل کے عبرانی اخبار ’یدیعوت احرنوت‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ تل ابیب غزہ کی پٹی کی بجلی فوری طور پر بند نہیں کرے گا بلکہ حکومت سیاسی اور عسکری قیادت سے اس حوالے سے صلاح مشورہ کرے گی۔ ممکن ہے اس حوالے سے عالمی برادری کے ساتھ مل کر بحران کا کوئی درمیانہ حل نکالا جاسکے۔

یہاں یہ امر واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کی پٹی کو مفت میں بجلی فراہم نہیں کرتی کہ اس کا کوئی احسان تسلیم کیا جائے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی کے لیے 100 ملین ڈالر کے ٹیکسوں کی رقم کی ماہانہ ادائی کا پابند ہے اور وہ انہی ٹیکسوں کی رقم سے اس کی کٹوتی کرتا ہے۔ اس طرح فلسطینی صدر محمود عباس کا یہ کہنا کہ وہ غزہ کی پٹی کی بجلی کی فنڈنگ نہیں کریں گے وہ بے معنی ہے۔ وہ اپنی جیب سے غزہ کو بجلی فراہم نہیں کررہے ہیں بلکہ غزہ ہی کے حصے کے ٹیکسوں سے یہ رقم کاٹی جاتی ہے۔

ممکنہ محاذ آرائی

فلسطینی تجزیہ نگار ھانی البسوس نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے اقدامات غیر مسبوق ہیں۔ غزہ کے خلاف فلسطینی اتھارٹی جو بھی اقدامات کرنے جا رہی ہےاس سے غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی شروع ہوسکتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں البسوس نے کہا کہ غزہ کے عوام پر مشکلات میں اضافہ امریکا میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ہوا ہے۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد غزہ کے عوام کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

البسوس کا کہنا تھا کہ بہ ظاہر اندرونی اور بیرونی دشمن عناصر کا ہدف حماس ہے مگر حماس کو دیوار سے لگانے کی سازش میں پوری فلسطینی قوم کو سزا دی جا رہے۔

مختصر لنک:

کاپی