اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخاب کے لیے ہونے والی پولنگ کے مقررہ وقت کو تین مرتبہ بڑھانے کے بعد اضافی پانچ گھنٹوں کا وقت بھی ختم ہو گیا ہے جس کے بعد گنتی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
ووٹنگ کے لیے ملک بھر میں لمبی لمبی قطارے دیکھنے میں آئیں اور ٹرن آؤٹ غیر متوقع طور پر بہت زیادہ رہا۔
صدارتی انتخاب میں ملک کے موجودہ اعتدال پسند صدر حسن روحانی کو قدامت پسند رہنما ابراہیم رئیس سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
پولنگ کا وقت ختم ہونے کے ساتھ ہی ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہو گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ نتائج آج ہفتے کی دوپہر تک سامنے آجائیں گے۔
صدر حسن روحانی کے حمایتی بڑی تعداد میں اس وقت باہر نکل آئے جب ایسے کچھ اشارے ملے کہ ان کے مخالف ابراہیم رئیسی کی حمایت کرنے والے سخت گیر نظریات رکھنے والوں نے اپنے فورسز کو ووٹ ڈالنے کے لیے حرکت دی ہے۔
الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ لوگوں کی ’درخواست‘ اور ’جذبے‘ کو دیکھتے ہوئے ووٹ کے اوقات میں اضافہ کیا گیا۔
ایران کے پڑوسی ملک ترکی میں ووٹ ڈالنے والے ایرانیوں کے لیے بیلٹ پیپر ختم ہونے کے بعد تہران سے مزید بیلٹ پیپرز بھجوانے کی کوششیں کی گئیں۔
اس سے قبل ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ چونکہ یہ انتخابات بہت اہم ہیں اس لیے سبھی ایرانیوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنا چاہیے۔
صدارتی انتخابی مہم کے دوران معاشی مسائل چھائے رہے کیونکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کافی بلند ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوسکی ہے۔
68 سالہ موجودہ صدر حسن روحانی اعتدال پسند عالم ہیں جنھوں نے 2015 میں عالمی رہنماؤں سے جوہری معاہدے پر بات چیت کی تھی اور اہم معاہدہ طے پایا لیکن اس معاہدے کے ثمرات ابھی تک عوام تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
ابراہیم رئیس الساداتی کی عمر 56 برس کی ہے اور وہ قدامت پسند خیالات کے مذہبی عالم ہیں، سابق سرکاری وکیل ابراہیم رئیس کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب مانا جاتا ہے۔