چهارشنبه 30/آوریل/2025

’نکبہ‘ صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں پرکیسے قیامت ڈھائی گئی؟

جمعہ 19-مئی-2017

سنہ 1948ء میں جب سرزمین فلسطین پرنام نہاد صہیونی ریاست کے قیام کے لیے مسلح صہیونی جتھوں نے اہل فلسطین پرقیامت ڈھائی تو اس واقعے کو گذرے 69 برس ہوچکے ہیں۔ فلسطین میں ’قیام اسرائیل‘ جسے فلسطینی قوم ’نکبہ‘ یعنی مصیبت کبریٰ کے طور پریاد کرتے ہیں کے چشم دید گواہ اب کم ہی رہ گئے ہیں۔

انہی محدود چند فلسطینیوں جنہوں نے فلسطینیوں پر قیام اسرائیل کے وقت ڈھائی گئی قیامت صغریٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ تمام مظالم برداشت کیے ان میں ایک نام الحاجہ فہیمہ خلیل مصطفیٰ النصری کا بھی ہے۔ حاجہ فہیمہ اس وقت 86 سال کی عمرمیں ہیں۔

ان کا آبائی تعلق مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقے ’زرعین‘ سے ہے۔ انہوں نے فلسطینی قوم پرصہیونیوں کی جانب سے مسلط کی گئی چارجنگیں دیکھیں جن کا آغاز سنہ 1948ء سے اور اختتام 2002ء میں ہوا۔

فہیمہ اس وقت فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کےشمالی شہرجنین میں قائم پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یوم نکبہ‘ سے محض تین روز قبل ان کا بیٹا عبدالجبار پیدا ہوا۔ وہ ابھی ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتی تھیں کہ ’ہاگانا‘ نامی یہود دہشت گرد تنظیم کے غنڈہ گردوں نے ان کے گھر پردھاوا بول دیا۔ اسی اثناء میں میرا بچہ رونے لگا، میرے شوہر نے مجھے کہا کہ بچے کو چپ کراؤ، اس کے رونے کی آواز صہیونی دہشت گردوں کو نہیں آنی چاہیے۔ پورے قصبے کے لوگوں نے محلے کی مسجد میں رات گذاری۔ اگلے روز ہم اپنے گھروں کو لوٹے ہر طرف تباہی اور بربادی کا عالم تھا۔

گھر رہنے کے قابل نہیں تھے۔ دن بھر گولیوں اور جنگی طیاروں کی گھن گرج میں گذرا۔ گاؤں کے تمام مردو زن اور بوڑھوں نے گھر بارچھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں پررہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ گاؤں کے تمام افراد جنین کے مغربی قصبے برقین پہنچے۔ سفر کی دیگرمشکلات کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ پر اسرائیلی طیاروں کی طرف سے بمباری نے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ ہم چار روز تک وہاں رہے جس کے بعد قصبے کے دیگر افراد مختلف مقامات کی طرف چلے گئے۔ میں میرا خاندان جنوبی جنین کےعرابہ قصبے کی طرف چلے گئے۔ ہمارے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی چھت نہیں تھی۔ ہم دن اور رات درختوں کے نیچے گذرتے۔ ہمارا یہ سفر ایک سے دوسری بستی کی طرف جاری رہا۔ عرابہ سے عنزا اور قباطیہ میں پہنچے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ ریلیف ایجنسی ’اونروا‘ کی جانب سے جنین میں پناہ گزین کیمپ قائم کیا گیا جہاں تمام پناہ گزینوں کو منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد ہمیں ان عارضی گھروں میں بھیجا گیا۔

ناقابل واپسی سفر

الحاجہ فہیمہ نکبہ کی ان گنت کربناک یادیں اپنے دل ودماغ میں بسائے ہوئے ہیں۔

ان المناک اور کربناک واقعات میں ان کے شوہر کی وفات بھی شامل ہے۔ الحاجہ فہیمہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر مصطفیٰ عبدالجابر الحج ابراہیم درزی کا کام کرتے۔ وہ کپڑے سلائی کرکے ایک سے دوسرے شہر میں فروخت کرتے۔ زرعین میں قیام دوران انہوں نے کپڑوں کے ساتھ ساتھ جنوبی شہر الناصرہ کو چینی کی سپلائی بھی شروع کی۔

نکبہ کے کچھ عرصہ بعد جب وہ الناصرہ شہر گئے تواس کے بعد واپس نہیں لوٹے۔

ہمیں دس سال کے بعد پتا چلا کہ مصطفیٰ عبدالجابر کوصہیونی فوج نے گرفتار کرنے کے بعد شہید کردیا تھا۔ ہمیں ان کے شہادت کے سوا اور کوئی پتا نہیں چل سکا اور نہ ہمیں یہ معلوم ہوسکا کہ انہیں شہید کرنے کے بعد کہیں دفن کیا گیا تھا۔

والد کی شہادت

الحاجہ فہیمہ مصطفیٰ کہتی ہیں کہ ان کرب ناک یادوں ان کی والد کی شہادت کا ناقابل فراموش واقعہ بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے والد خلیل مصطفیٰ علی المصری فدائین میں شامل تھے۔ انہوں نے برطانوی استبداد کے دور ہی سے فلسطین پر قبضے کے خلاف جدو جہد شروع کردی تھی۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطین میں ایک فدائی کارروائی کےبعد زرعین لوٹے تو اہالیان قصبے پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ برطانوی فوج بار بار ہمارے گھر پر چھاپے مارتی اور والد کو حراست میں لینے کی کوشش کرتی رہی۔

زرعین کو کبھی نہیں بھلا سکتے

الحاجہ فہیمہ نے کہا کہ ہرایک کے لیے اپنا آبائی گاؤں سے پیار قدرتی امر ہے۔ انہیں بھی زرعین آج تک رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ وہ کبھی اپنے گاؤں کو فراموش نہیں کرسکتے۔ گاؤں میں ہم لوگوں کا معمول گند، جو اور دیگر فصلوں کی کاشت کاری کے ساتھ گائے اور بکریاں بھی پالتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’نکبہ‘ کو گذرے 69 برس گذر چکے ہیں مگر وہ آج تک اپنے گاؤں اور اس کی یادوں کوآج تک دل میں بسائے ہوئے، اپنی بیٹی امل کے قریب بیٹھے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ چل پھر نہیں سکتیں۔

مختصر لنک:

کاپی