سال 2016ء کے دوران اسرائیل میں بیرون ملک سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں کی نسبت صہیونی ریاست سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 10 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس 18 ہزار یہودی اسرائیل چھوڑ کر دوسرے ملکوں کو چلے گئے۔
ٹی وی رپورٹ میں اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ٹی وی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ کے دوران بیت المقدس پرقبضے کے 50 سال پورے ہونے کا جشن سلور جوبلی کی شکل میں منا رہا ہے مگر زمینی حقیقت اس کےبرعکس ہے۔ اسرائیلی حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ بیت المقدس میں یہودی آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مگر حکومت اصل حقائق اور اعدادو شمار چھپا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ایک برس کے دوران 18 ہزار یہودی اسرائیل چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بسے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل سے واپس جانے والے یہودیوں میں 46 فی صد کی عمریں 20 سے 34 سال کے درمیان ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں کا اسرائیل چھوڑنا حکومت اور ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے روزگاری، بدامنی اور سماجی مسائل یہودیوں کو اسرائیل چھوڑنے پر مجبور کررہے ہیں۔ القدس میں بسنے والے یہودیوں کی آمدن کا تناسب دوسرے شہروں میں رہنے والوں کی نسبت بہت کم ہے۔
ٹی وی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس میں یہودی آباد کار خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ 71 فی صد یہودی بیت المقدس میں آزادنہ چلنے پھرنے سے خوف زدہ ہیں۔