فلسطین کے تاریخی اور عالم اسلام کے مقدس شہر مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانے کی صہیونی سازشیں تو گذشتہ پانچ عشروں سے جاری ہیں۔ مگر ان سازشوں میں آئے روز نئے نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں۔
حال ہی میں یہودی انتہا پسند گروپوں نے اسرائیلی حکومت کی حفاظتی چھتری تلے بیت المقدس میں ’اسرائیلی پرچم بردار جلوس‘ نکالا۔ پرچم بردار جلوس نکالنے کا یہ پہلا موقع نہیں۔ یہودی شدت پسند پچھلے کئی سال سے نام نہاد مذہبی دعوؤں کی آڑ میں ایسا کرتے آرہے ہیں۔ اس بار پرچم بردار جلوس کا اہتمام اس لیے خاص طور پر کیا کیونکہ صہیونی ریاست سرکاری سطح پر بیت المقدس پر قبضےکے 50 سال مکمل ہونے پراگلے ماہ ’سلور جوبلی‘ منا رہی ہے۔
مبصرین نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیوار براق کے احاطے سے پرچم بردار ریلی نکالنے کا اصل مقصد بیت المقدس کی اسلامی اور شناخت مٹا کر شہر پر یہودیت مسلط کرنا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور مذہبی رہ نما ناجح بکیرات نے کہا کہ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کے پچاس سال پورے ہونے پرانتہا پسند یہودی اور اسرائیلی حکومت دونوں ہی غیر مسبوق انداز میں القدس کو یہودیانے میں سرگرم ہیں۔ مسجد اقصیٰ سے پرچم بردار ریلی نکالنے کی بدعت پہلی بار شروع کی گئی ہے۔ بعض یہودی آباد کار ماضی میں القدس شہر میں اس طرح کی ریلیاں نکالتے رہے ہیں مگر انہیں مسجد اقصیٰ کے قریب سے ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اب کی بار اسرائیلی حکومت کی سرکاری سرپرستی میں سنہ 1967ء کے بعد مسجد اقصیٰ کے اہم ترین تاریخی مقام ’دیوار براق‘ سے ریلی نکالی۔
انہوں نے کہا کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے قریب پرچم بردار ریلی کوئی اچانک فیصلہ نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت اور یہودی انتہا پسندوں کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ پرچم بردار جلوس نکالنے کا اصل مقصد حرم قدسی میں یہودیوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع کرنا اور فلسطینیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اس شہر میں اب ان کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔
ناجح بکیرات نے کہا کہ پرچم بردار جلوس میں شریک یہودی آباد کاروں کے لباس، چال ڈھال، مذہبی رسومات کے طریقہ کار، الفاظ حتیٰ کہ ان کا رقص وناچ گانا سب یہ پیغام دے رہے تھے کہ القدس کے حقیقی باشندوں[فلسطینیوں] کے لیے اب اس شہر میں زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ اب یہاں صرف یہودیوں کا راج ہے اور وہ کھل کر اس شہر میں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ یہودی پرچم بردار ریلی کے شرکاء کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے جس طرح کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ پرچم بردار جلوس کے انعقاد کے پس پردہ اسرائیلی حکومت کا ہاتھ تھا۔ جن جن راستوں سے اس نام نہاد جلوس کو گذرنا تھا ان کے اطراف میں فلسطینی شہریوں کے کاروباری مراکز ایک روز پہلے ہی بند کرادیے گئے تھے۔ فلسطینی شہریوں میں خوف اور رعب طاری کرنے کے لیے چپے چپے پر اسرائیلی فوج، پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں کی بھاری تعداد متعین تھی۔
صیہونی نسل پرستی
بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن حاتم عبدالقادر نے یہودی آباد کاروں کی قبلہ اول کے قریب پرچم بردار ریلی کے انعقاد کو اشتعال انگیز اور فلسطینی آبادی پرصہیونیوں کی نئی ثقافتی یلغار قرار دیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے حاتم عبدالقادر کا کہنا تھا کہ مشرقی بیت المقدس کی کالونیوں میں یہودی اشرار کو من مانی کرنے اور مرضی کی پرچم بردار ریلیاں نکالنے کی اجازت دینا مقامی فلسطینی آبادی پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی دیدہ ودانستہ سازش ہے۔ پرچم بردار جلوس کے نتیجےمیں پرانے بیت المقدس کی تاجر برادری کو جس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس نے صہیونیوں کی فلسطینیوں کی خلاف بدترین نسل پرستی کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے آشکار کردیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عبدالقادر کا کہنا تھا کہ اگر صہیونی ریاست کی سرپرستی میں بیت المقدس میں پرچم بردار جلوس نکالے جاتے ہیں تو اس سے ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسرائیل اس طرح کی سازشوں سےبیت المقدس پراپنی اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا۔ اگراس طرح اسرائیل عالمی برادری کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ متحدہ القدس صہیونی ریاست کا دارالحکومت ہے تو بالتاکید اس پیغام کی بھی ہمارے نزدیک کوئی قدرو قیمت نہیں۔
ادھر دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی نے کہا ہے کہ سنہ 1967ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا تسلط بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ عالمی قانون کی رو سے اسرائیل بیت المقدس پر سلور جوبلی منانے کا مجاز نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ کھلم کھلا انسانی حقوق کی پامالی ہوگی۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کے پرچم بردار جلوس کے دوران جس طرح صہیونیوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی گئی فلسطینیوں کو نہیں کی جاتی۔ فلسطینی آبادی ایک طرف انتہا پسند صہیونیوں کی اور دوسری طرف اسرائیلی فوج اور پولیس کے پرتشدد حربوں کا سامنا کررہی ہے۔