فلسطین کے تاریخی شہر مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانے کا سلسلہ 1948ء میں اس وقت شروع ہوا جب فلسطین میں نام نہاد صہیونی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ مگر سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ کے بعد بیت القمدس کو یہودیانے کی ایک نئی، منظم اور انتہائی خوفناک مہم کا آغاز ہوا۔ اسرائیل میں قائم ہونے والی تمام حکومتیں چاہے وہ دائیں بازو کی ہوں یا بائیں بازو کی القدس میں یہودی توسیع پسندی ان کی اولین ترجیح رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں مقبوضہ فلسطین بالخصوص بیت المقدس کو یہودیانے کے مکروہ صہیونی قوانین پر روشنی روشنی ڈالی ہے۔ ان نام نہاد سیاہ قوانین کی آڑ میں بیت المقدس کے چپے چپے پر یہودیوں کو بسانے اور فلسطینی قوم کو ان کی املاک سے محروم کرنے کے تمام حربے آزمائے گئے۔
ان نام نہاد قوانین کی آڑ میں صہیونی ریاست نے مشرقی بیت المقدس کی 35 فی صد اراضی پرغاصبانہ قبضہ کیا۔ اس پر 15 بڑی کالونیاں قائم کی گئیں جن میں یہودی آباد کاروں کے لیے 60 ہزار مکانات تعمیر کیے گئے۔
قانون املاک متروکہ
انتالیس دفعات پر مشتمل املاک متروکہ قانون 1950ء میں منظور کیاگیا۔ اس قانون کے تحت صہیونی انتظامیہ کو ان فلسطینیوں کی املاک پرقبضے کا اختیار دیا جنہیں فلسطینی شہری جنگ کےخوف یا یہودی آباد کاروں کے حملوں کے نتیجے میں چھوڑ کر دوسرے مقامات پر جا چکے تھے۔ اس قانون کے تحت ان فلسطینیوں کی املاک کو بھی ہتھیا لیا گیا جومحض چند گھنٹوں کے لیے بھی اپنی املاک یا اراجی سے دور ہوئے تھے۔
یہ قنون آج بھی نافذ العمل ہے اور اس قانون کے تحت فلسطینیوں کی وسیع رقبے پر پھیلی اراضی اور دیگر املاک قبضے میں لی گئی۔
قانون واپسی
یہ قانون 1950ء میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت ییودیوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس علاقے میں پیدا ہوئےہیں وہاں مستقل سکونت اختیار کریں مگر یہ حق فلسطینیوں کو نہیں دیاگیا۔ اس طرح یہودیوں کو فلسطین میں کہیں بھی آباد ہونے اور اس کے لیے کسی اجازت نامے کے بغیر رہنے کا حق دیا گیا۔
تنظیم و تعمیری کا قانون
صہیونیی حکومت نے پرانے بیت المقدس کو گرین زون قرار دے کر فلسطینی شہریوں کووہاں پر مکانا کی تعمیر پر پابندی لگا دی۔ یہ واضح رہے کہ گرین زون میں مشرقی بیت المقدس کا 40 فی صد علاقہ بھی شامل ہے۔ ان علاقوں میں یہودیوں کو بسانے کے لیے تعمیرات کا آغاز ہوا۔ اس مقصد کے لیے ایک نئے قانون کا سہارا لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بیت المقدس اور اس کے اطراف میں بڑی تعداد میں فلسطینی آبادی کو زبردستی ھجرت پرمجبور کیا گیا۔
قانون سکونت
قانون سکونت نامی قانون ان فلسطینیوں کے لیے منظورکیا گیا جو صہیونی ریاست کے اندر رہ رہے تھے۔ انہیں صہیونی ریاست کا شہری قرار دینے کےبجائے محض سکونتی باشندہ قرار دیا گیا۔ اس طرح اس قانون کی آڑ میں بیت المقدس اور شمالی و جنوبی فلسطین کے لاکھوں فلسطینیوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیاگیا۔
القدس سیکرٹریٹ کونسل تحلیل
اسرائیلی حکومت نے 29 جون 1967ء بیت المقدس سیکرٹریٹ کونسل تحلیل کردی جس کے بعد القدس میں اراضی کی خریدو فروخت اور اس کے تمام دیگر استعمالات کے تمام اختیارات صہیونی ریاست کو منتقل کیے گئے۔ اردنی حکومت کی طرف سے القدس کے لیے وضع کردہ قوانین کے تمام اختیارات بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ کو منتقل کے گئے۔
انتظامی اور قانونی اختیارات
انتظامی اور قانونی اختیارات کا قانون 1968ء میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت بیت المقدس کی تمام آئینی اور شرعی عدالتوں کے اختیارات صہیونی ریاست کی قائم کردہ عدالتوں کو تفویض کردیے گئے۔
القدس اسرائیل کا دارالحکومت
یہ قانون 30 جولائی 1980ء کو منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت صہیونی کنیسٹ نے مشرقی بیت المقدس کو مغربی بیت المقدس میں ضم کرنے کے بعد اسے اسرائیل کا ابدی دارالحکومت قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
شہریت کا قانون
یہ نام نہاد قانون 2003ء میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت اسرائیلی شہریو کو دُشمن خاندانوں کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا۔