جمعه 02/می/2025

’ابوعون کے زندانوں میں گذرے 22 رمضان اور اہل خانہ کا دُکھ‘

بدھ 7-جون-2017

اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینیوں میں کئی ایک ایسے بھی ہیں جن کی عمروں کا بیشتر حصہ صہیونی ریاست کی جیلوں میں گذرا۔ کئی رمضان اور عیدیں آئیں اور گذر گئیں۔ ان کے پیارے ان کی یاد میں رمضان اور عیدیں، خوشی اور دکھ تمام لمحات کوحسین یادوں اور جدائی کے آنسوؤں کے ساتھ گذارتےہیں۔

انہی میں ایک اسیر نزیہ ابو عون ہیں۔ ابو عون اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہ نما ہیں اور وہ مسلسل 22 ماہ صیام صہیونی ریاست کی جیلوں میں کاٹ چکے ہیں۔

بیٹے کے درد بھرے تاثرات

نزیہ ابو عون کا بیٹا یاسین ابو بائیس سال سے زاید عمر کا ہوچکا ہے۔ اس نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے اپنے والد کی جدائی کا دکھ رقت آمیز انداز میں بیان کیا۔ یاسین نے بتایا کہ جب اس نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو تب بھی اس کا والد اسرائیلی جیل میں قید تھا، جب اس نے 12 سال کی عمر میں پہلی بار روزہ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو تب بھی صہیونی فوجی اس کے والد کو اٹھا کر لے گئے۔ وہ مسلسل 22 رمضان المبارک اپنے والد کے بغیر رمضان اور عیدیں گذارتے ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے یاسین ابو عون نے کا کہ میں دوسرے بچوں کو اپنے والد کی انگلی پکڑے ماہ صیام میں مساجد میں نماز تراویح اور فجر کی نمازوں کے لیے جاتے دیکھتا ہوں تو خود احساس کم تری کا شکار ہوتا ہے۔ میں یہ سوچتا رہ جاتا ہوں کہ کاش میرے والد بھی جیل میں نہ ہوتے تو میں ان کے ساتھ اسی طرح محبت اور خلوص کے سے ان کا ہاتھ تھامے مسجد جایا کرتا۔

یاسین کا کہنا ہے کہ 2005ء میں میری پیدائش کےوقت میرئے والد جیل میں قید تھے اور کئی سال گذرنے کے بعد بھی وہ بدستور پابند سلاسل ہیں۔

پس دیوار زنداں میں 22  ماہ صیام

حماس رہ نما نزیہ ابو عون کی گرفتاریوں کا سلسلہ 10 جون 1993ء کو ہوا۔ پہلی بار گرفتاری کے بعد انہیں چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔  26 ستمبر 1998ء کو انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا اور مزید 6 سال قید کی سزا کا حکم دیا گیا۔

نزیہ ابو عون جب چھ سال قید کی سزا مکمل کرکے رہا ہوئے تو ابھی  رہائی کو چند ماہ ہی گذرے تھے کہ انہیں 25 ستمبر 2005ء کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ ابو عون کی گرفتاری اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے بلدیاتی انتخابی نمائندوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران عمل میں لائی گئی۔ وہ 17 مارچ 2006ء تک پابند سلاسل رہے۔ ان کی رہائی کی تاریخ قریب آئی تو ان کی سزا میں مزید تین ماہ کی توسیع کردی گئی۔ 26 جون 2006ء کو اسرائیلی فوج نے حماس کے پارلیمانی بلاک اصلاح وتبدیلی کے منتخب ارکان پارلیمنٹ کے خلاف آپریشن شروع کیا اور انہیں ایک بار پھر حراست میں لے لیا گیا۔

قابض فوج نے انہیں 24 مئی 2007ء کو انتظامی حراست میں منتقل کردیا۔ وہ مسلسل 17 مارچ 2010ء تک بغیر کسی الزام کے انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل رہے۔ رہائی کے 14 دنوں کے بعد انہیں فلسطینی اتھارٹی کی نام نہاد پولیس نے حراست میں لیا اور مزید 40 دن وہ عباس ملیشیا کی قید میں رہے۔

سنہ 2010ء کو عباس ملیشیا نے جب انہیں حراست میں لیا تو رمضان کی 16 تاریخ تھی۔ یوں عباس ملیشیا نے ابو عون اور ان کے اہل خانہ کی رمضان المبارک ایک ساتھ گذارنے کی خواہش پر پانی پھیر دیا۔ انہیں عباس ملیشیا کے زنداں میں نہ صرف قید تنہائی میں ڈال دیا گیا بلکہ انہیں بدترین جسمانی اذیتیں دی گئیں۔

عباس ملیشیا کی جیل سے رہائی کے بعد پانچ جولائی 2011ء کو اسرائیلی فوج نے انہیں چھٹی بار حراست میں لیا اور 17 ستمبر 2013ء کو انہیں رہا کیا گیا۔ ان کی ساتویں گرفتاری ایک بار عباس ملیشیا کے ہاتھوں ہوئی اور آٹھویں بار اسرائیلی فوج نے 10 جولائی 2014 کو حراست میں لے لیا۔ 10 جولائی 2017ء کو رہائی کے بعد یکم اپریل 2016ء کو انہیں مزید سات ماہ کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔ اس طرح اس دوران آنے والے تمام ماہ صیام ان کی  قید ہی میں گذرے کبھی عباس ملیشیا کی زندانوں میں اور کبھی صہیونی فوج کے حراستی مراکز میں گذرے۔

مسرت کا قتل عام

نزیہ ابو عون کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے لگتا ہے کہ اسرائیلی فوج اور عباس ملیشیا ایک منظم منصوبے کے تحت ان کے خاندان کو خوشی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

ان کے بیٹےاسلام ابو عون نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عباس میلشیا اور اسرائیلی فوج  نے ان کے والد کو گرفتار کرنے کی باریاں مقرر کررکھی ہیں۔ وہ مل کران کے خاندان کی اجتماعی خوشی کا قتل عام کررہے ہیں۔ صرف رمضان المبارک ہی نہیں بلکہ عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے مواقع پربھی نزیہ ابو عون کو حراست میں لیا جاتا رہا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی