اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینی انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں زندگی کے شب وروز گذارتے ہیں۔ ماہ صیام کی آمد کے ساتھ اسیران کی مشکلات اور مصائب میں اور بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف فلسطینی قیدیوں پر پابندیوں میں اضافہ کردیاجاتا ہے۔ اسیران کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے طرح طرح کے انتقامی حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔عموما ماہ صیام میں صہیونی جیلروں کا اسیر روزہ داروں کے ساتھ اور بھی ظالمانہ اور جارحانہ ہوجاتا ہے۔ صہیونی انتظامیہ کےفلسطینی اسیران کے خلاف جارحانہ اقدامات میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر اسیران ماہ صیام کے دوران پہلے کی نسبت زیادہ بلند ہمت اور بلند حوصلہ ثابت ہوتے ہیں۔
ایک سابق فلسطینی اسیر احمد البیتاوی نے بتایا کہ بالعموم تمام فلسطینی اسیران بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے اسیران عوفر جیل میں مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے اپنے کمروں میں داخل ہوجاتے۔ ہم سے بعض تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوجاتے۔ کچھ ریڈیو سنتے اور بعض ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے۔ باری باری بعض قیدی کھانےپینے کی دستیاب اشیاء سے حلویات بناتے اور مختلف اقسام طعام کاانتظام کرتے۔
ایک سوال کے جواب میں بیتاوی نے بتایا اسیران میں سے بعض ماں یا خاتون خانہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کھانا بناتے ہوئے حسب ضرورت ہم اسے چکھ بھی لیتے۔
کھانا تیار ہونے کے بعد مشروب تیار کیے جاتے اور باری باری اپنے اپنے کمروں میں اشیائے خوردو نوش، مشروبات اور کھجوریں پہنچائی جاتیں۔ افطاری کے بعد قیدیوں میں شوربا اور روٹیاں تقسیم کی جاتیں۔
ککنگ میں مہارت
احمد البیتاوی نے بتایا کہ اسیران میں سے بہت کم ایسا ہوتاہے جو کنگنگ میں مہارت نہ رکھتا ہو۔ ورنہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر مختلف دیسی اور علاقائی پکوان بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ بعض قیدی تو باقاعدہ پیشہ ور کک ہوتے۔
انہوں نے بتایا کہ بہترین اور ماہر پیشہ ور کھانا تیار کرنےوالوں میں الشیخ حسن یوسف بھی شامل تھے۔ وہ الف سے یا تک تمام کھانوں اور پکوانوں میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ وہ کھانا بناتے وقت اسیران کے ساتھ ہنسی مزاح بھی کرتے۔
اہل خانہ سے دوری
سابق اسیرا احمد البیتاوی نے بتایا کہ اسیری کی زندگی میں بھی قیدی اپنا غم غلط کرنے اپنے اہل خانہ کی جدائی کا احساس کرتے ہوئے آزادی کی یادیں تازہ کرتے۔ آزادی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے وہ شوربہ جات، کھانے کی اشیا، جوس اور حلوہ جات ایک دوسرے تک بہ طور تحفہ پہنچاتے۔ بعض اوقات جب اسیران پر سختیاں کم ہوتیں تو ایسے لگتا کہ اسیری نہیں بلکہ گھر کا ماحول ہے مگر ایسا شاذو نادر ہی ہوتا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسیران ماہ صیام کے موقع پر ادویہ ماثورہ کا خاص اہتمام کرتے۔ دعائیں یاد کی جاتیں اور ایک دوسرے کو سنائی جاتیں۔ افطاری کے وقت اسرائیلی جیلوں سمیت دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتیں۔