اسلامی تحریکمزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے نایب صدر الشیخ صالح العاروری کی گذشتہ روزاسرائیلکے ایک بزدلانہ حملے میں شہادت نے ہر ایک کو دکھی کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہرطرفان کے چرچے ہو رہے ہیں اور ان کی خدمات اور قربانی کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہاہے۔
الشیخ صالحالعاروری کل منگل کی شام کو بیروت کے جنوبی نواحی علاقے المشرافیہ میں اسرائیلی قابضفوج کے حماس کے دفتر پر کیے گئے حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
الشیخ صالح العاروریکی بہن ام قتیبہ نے اپنے بھائی کی شہادت پر فلسطینی عوام اور قوم کو مبارکباد پیشکی اور اس بات پر زور دیا کہ العاروری کی یہی خواہش تھی اور وہ ہر روز سجدہ کرتےہوئے دعا کیا کرتے تھے "اے اللہ،مجھے شہادت کی موت عطا فرما۔” الحمد للہ میں اپنے آپ کو اور فلسطینی عوام کوان کی شہادت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔فلسطین کا ایک دن آزادی کا دن ہے، دشمن چاہےکتنے ہی لیڈروں کو قتل کردےمگر وہ اللہ کی اس منشیا اور فتح کے فیصلے کو ختم نہیںکرسکتا۔
سوشل میڈیا صارفیننے الشیخ العاروری کی والدہ کی ایک تصویر شائع کی جس کی زبان پر یہ الفاظ تھے:”خدا قبول کرے، خدا قبول کرے۔” انہوں نے الجزیرہ کو بیان میں کہا کہ”میں اپنے بیٹے کو اس اعزاز پر مبارکباد پیش کرتی ہوں جس کی وہ خواہش کرتاتھا اور پہلے ہی حاصل کر لیا ہے۔”
محقق بلال شلش نےایک تصویر شائع کی: "الخلیل یونیورسٹی میں اسلامی بلاک کے امیر صالح العاروریاب دنیا میں نہیں رہے۔ یہ تصویر اس وقت کی ہے جب العاروری اسلامک بلاک کے سربراہتھے۔ تصویر کے بائیں جانب القدس یونیورسٹی میں اسلامک بلاک کے امیر عادل عوض اللہہیں۔ انہوں نے مغربی کنارے میں حماس کی فوجی کارروائی کے مرکز کو قائم کرنے میںاپنے بھائی بیرزیت کے امیر ابراہیم حامد کے ساتھ تعاون کیا۔
رہائی پانے والےاردنی قیدی سلطان العجلونی نے کہا کہ "ابو محمد سے بدلہ لینے کا الخلیل سے زیادہحقدار کوئی نہیں ہے۔ الخلیل ور اس کے قبائل کے لوگ میری بات کے مقصد اور وجہ کوسمجھتے ہیں۔
صحافی معاذ حمیدنے کہا کہ "ہر کوئی الشیخ صالح العاروری کے قتل کے ردعمل میں لبنان اسکوائرکے ردعمل کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مغربی کنارے کا میدان ردعمل میںقابض دشمن کے خلاف حیرت کا عنصر بن سکتاہے۔
محقق خالد عوضاللہ نے کہا کہ الشیخ صالح کا قتل عمل درآمد کی سطح پر ایک مشترکہ امریکی صہیونیآپریشن ہے، جو بحیرہ روم سے فورڈ طیارہ بردار بحری جہاز کو واپس لے کر خطے میں امریکیفوجی موجودگی کو کم کرنے کے آغاز کے اعلان کی آڑ میں کیا گیا۔
القسام بریگیڈزکے شہید کمانڈر کے بیٹے معاذ احمد الجعبری نے العاروری کی اپنے والد کے ساتھ تصویرشائع کی اور تبصرہ کیا کہ "الشیخ صالح العاروری وفا احرار مذاکراتی وفد کے ارکان میںسے ایک ہیں‘‘۔
یوسف الدموکی نےکہا کہ "قابض دشمن غزہ میں اپنےاہداف کا ایک ذرہ بھی حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ اس لیے اس نے ایک پرانی، تجدید شدہچال کا سہارا لیا، بیرون ملک رہ نماؤں کو قتل کر کے وہ اپنے جرائم کو آگے بڑھارہا ہے مگر دشمن دلدل میں پھنستا چلا جائے گا۔
صحافی تسنیم حسننے ایک پوسٹ میں لکھا کہ "وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا، وہ ہمارے اس دنیا میںآنے سے پہلے موجود تھا۔ میرے شہید چچا امجد کی صحبت اور سوانح عمری میں موجود تھا،قید کے طویل سالوں میں بھی موجود تھا۔فلسطین کے اندر اور باہر موجود تھا۔ ہمارے فخر، فتح، اور انتقام میں موجود ہے۔ وہموجود تھا اور رہے گا، کیونکہ جسم فنا ہو جاتا ہے اور روح ہمارے اندر اور اس زمینکے اندر رہتی ہے۔”