کہتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، مگر فلسطین میں ’الصبر‘ کے نام سے ہزاروں سال سے ایک میوہ اپنی بے پناہ لذت کے ساتھ ساتھ کئی خطرناک امراض کا شافی علاج بھی سمجھا جاتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ’الصبر‘ کی کاشت اور اس کی طبی اہمیت پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اپنے غیرمعمولی طبی فواید کی بدولت الصبر کو صحرائی ڈسپنسری بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر اسے ’کانٹے دار انجیر‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ تاریخی مصادر سے پتا چلتا ہے کہ ’الصبر‘ نامی میوہ فلسطین کی دور حاضر ہی کی سوغات نہیں بلکہ یہ ہزاروں سال قبل بھی ارض فلسطین میں کاشت کیا جاتا تھا۔ قدیم فراعنہ مصر کے حکما الصبر کو کئی امراض کے علاج کے طور پراستعمال کرتے تھے۔ فلسطین کے بیشتر شہروں میں کاشت کیا جانے والا پھل الصبر آج سے ہزاروں سال کنعانی دور میں بھی موجود تھا۔
فلسطینی مورخ مصطفیٰ مراد الدباغ اپنی کتاب ’بلادنا فلسطین‘[فلسطین ہمار ادیس] میں لکھتے ہیں کہ ’الصبر‘ کو قدیم کنعانی دور میں بھی غیرمعمولی طبی افادیت کے حامل ایک میوہ کے طور پر سمجھا جاتا تھا اور لوگ بڑی رغبت کے ساتھ اس کی کاشت کرتے تھے۔ یہ پھل آج بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔
ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ الصبر میں کئی غیرمعمولی طبی فواید پائے جاتے ہیں۔ اس میں موجود چپچپانے والے مائع کے ساتھ وٹا من E، امینیو ایسڈ، انسانی جسم کے لیے ضروری غذائی خصوصیات، چہرے کی بشاشت میں اضافہ کرنے والے عوامل، کئی اقسام کے کیمیائی مواد کی موجودگی متعدد امراض سےبچاؤ میں معاون و مدد گار ہے۔
الصبر کو فلسطین میں موسم بہار کا پھل کہا جاتا ہے۔ موسم گرما کے اوائل میں یہ میوہ تیار ہوجاتا ہے۔ اس کے ارد گرد ایک سبز خول اندر موجود منفرد ذائقے دار پھل کی حفاظت کرتا ہے۔ خول کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے کانٹے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کا چھلکا با آسانی اتارا جا سکتا ہے۔ اس پھل کو اتارنے کے بعد کچھ دیر فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کریں تو اس کا ذائقہ اور لذت اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔
الصبر کا پودا دو یا تین میٹر تک اونچا ہوتا ہے۔ الصبر کا پھل ہی نہیں بلکہ اس کے پتوں میں بھی کئی طبی خواص پائے جاتے ہیں۔ پودے پر لگے الصبر کے دانے دور سے نگینوں کی طرح خوبصورت اور دلفریب دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پھل پکنے تک زردی مائل یا مالٹے کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور جیسے جیسے اس کے دانے بڑے ہوتے جاتے ہیں، ان کے گرنے کا احتمال اور امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
طبی خواص
قدیم فراعنہ کے دور میں الصبر کے پھل کو صحرائی ڈسپنسری کہا جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے طبی فواید ہیں کیونکہ اس میں کئی اقسام کے وٹا من پائے جاتے ہیں۔ فراعنہ الصبر کا عرق نکال کر اسے مختلف امراض کے علاج کے لیے استعمال کرتے۔ اس کے علاوہ پھل کو خشک کرکے اس کی معجون بھی بنائی جاتی۔
فراعنہ کے دور میں الصبر کو ایک پھل سے زیادہ اس ایک دوائی کے طور پر زیادہ استعمال کیا گیا۔
القدس یونیورسٹی میں غذائی امور کے پروفیسر ڈاکٹر ھسن شعبان التمیمی کا کہنا ہے کہ الصبر میوے میں گلوکوز شوگر، فرکٹوز شوگر، الاسکورپیک ایسڈ، خوردنی تیل، الٹراجاگنتھ نامی رنگ دار مادہ، ایکسلیٹ کیلشیم، ٹائنائٹ اور دیگر کئی خواص پائے جاتے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر التمیمی نے کہا کہ الصبر کا طبی تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہےکہ اس میں آئرن، پروٹین، فائبر، انرجی، پانی، فاسفور، چکنائی، کاربوہائیڈریٹ، کیلیشم، میگنیشیم، پوٹائیشیم، سوڈیم، زنک، وٹامن E، C14، وٹا من B،1، B2 اور B3 کے علاوہ تھیامن، رایپوفلاوین، نیشین، فولیک ایسٹ جیسے خواص اس پھل کی خصوصیات میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ الصبر کا استعمال کرنے والے افراد کئی امراض جن میں نظام انہضام کی بیماریوں، ہاضمے میں پائے جانے والے ایسڈ اور امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔
غذائی اہمیت
الخلیل شہر کے ایک مقامی تاجر الحاج محمد برکات نے بتایا کہ لوگ الصبر کا پھل توڑ کراس کی دکان پر لاتے ہیں جہاں سے شہری اسے خرید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ تھیلے بھربھر کر لےجاتے ہیں۔
الحاج محمد برکات عطریات کا کام بھی کرتےہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دکان کے ایک کونے میں لگی ایک تختی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گذشتہ 60 سال سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ میں نے عطریات کی تیاری کا فن اپنے دادا سے سیکھا۔ انہوں نے کہا کہ الصبر کی تیار کردہ چھوٹی چھوٹی پلیٹیں کئی امراض کا شافی علاج ہیں۔ یہ پھل بڑی آنت کی بیماریوں، خواتین کے حیض کے ایام میں تاخیر اور جلد کی سوزش اور انفیکشن کا بھی علاج سمجھا جاتا ہے۔