آج سے دو روز قبل اسرائیلی حکومت نے جمہوری روایات اور آزادی اظہار کی بدترین دشمنی کامظاہرہ کرتے ہوئے قطر کے عالمی شہرت یافتہ الجزیرہ ٹی وی چینل کا دفتر سیل کردیا۔ دفتری عملے کو گھروں کو بھیج دیا گیا اور ٹی وی چینل سے وابستہ تمام صحافیوں اور دیگر عہدیداروں کے پرمٹ منسوخ کردیے ہیں۔
اسرائیلی ریاست کے اس مکروہ اقدام کے خلاف فلسطین اور دنیا کے مختلف ملکوں میں عوامی اور صحافیوں حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں ماہرین کی آراء کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا اسرائیلی حکومت کو ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ اس نے الجزیرہ ٹی وی چینل کی نشریات دکھانے پر پابندی عاید کی ہے۔
سماجی شعبے کے مبصرین فلسطینی دانشورں نے الجزیرہ ٹی وی چینل کی بندش پر اظہار خیال کیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو نشریات دکھانے اور فلسطین میں کوریج کے لیے بادل نخواستہ اجازت دی تھی۔ اسرائیل نے دل سے کبھی بھی الجزیرہ ٹی وی چینل کو پسند نہیں کیا۔ بار بار اس کی نشریات روکنے کی کوشش کی گئی۔ مسجد اقصیٰ میں تازہ کشیدگی محض ایک بہانہ ہے جس کی آڑ میں صہیونی ریاست کو الجزیرہ ٹی وی چینل کے خلاف زہر اگلنے اور انتقامی کارروائیوں کا موقع فراہم کیا ہے۔
مسجد اقصیٰ میں کشیدگی کی کوریج
فلسطینی صحافی، دانشور اور استاد ڈاکٹر کمال علاونہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے فلسطین میں الجزیرہ ٹی وی چینل کی سرگرمیوں اور چینل کی نشریات دکھانے پر پابندی متوقع تھی کیونکہ الجزیرہ نے 14 جولائی کے بعد مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائی پر پابندیاں عاید کرنے کے بعد اس اہم سلگتے مسئلے کو غیرمعمولی کوریج دی تھی۔ الجزیرہ کی اسی کوریج کی آڑ میں صہیونی ریاست نے الجزیرہ پر نفرت کو ہوا دینے اور اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلانے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے کا الزام عاید کیا۔
ایک سوال کے جواب میں علاونہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے الجزیرہ ٹی وی چینل پر نفرت کو ہوا دینے کا الزام مضحکہ خیز ہے۔ الجزیرہ تو متوازن انداز میں محض اظہار رائے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ یہ واحد عرب ٹی وی چینل تھا جو صہیونی فوج کے ترجمان، عسکری قیادت اور اسرائیل کے سیاسی رہ نماؤں سے بھی بات کرتا اور ان کی رائے بھی جاننے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس طرح الجزیرہ نے ہمیشہ متوازن کوریج اور نشریات پیش کی ہیں۔ الجزیرہ پر فلسطینیوں کی بے جا حمایت کا الزام محض ڈھونگ ہے۔ اگر الجزیرہ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت کی بھی رائے لے رہا ہے تو اس کے بعد اسے بند کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
قطر کی ناکہ بندی
ڈاکٹر کمال علاونہ کا کہنا ہے کہ الجزیرہ ٹی وی چینل کی نشریات پند کرنے کا ایک محرک علاقائی عرب ممالک کی طرف سے قطر کی سفارتی اور معاشی ناکہ بندی ہے جو فلسطینی تحریک مزاحمت کی حمایت کی پاداش میں دوحہ پر مسلط کی گئی ہے۔ عرب ممالک کی طرف سے فلسطینی تحریک مزاحمت کے حوالے سے وہی موقف اختیار کیا گیا ہے جو گمراہ کن موقف اس سے قبل امریکی اور صہیونی اختیار کرتے ہوئے فلسطینی تحریک آزادی کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کرچکے ہیں۔
علاونہ نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ الجزیرہ ٹی وی چینل کی بندش کے اسرائیلی مذموم عزائم کا مقصد دنیا کو فلسطین کی اصل صورت حال سے آگاہی سے محروم کرنا ہے۔ چونکہ الجزیرہ چینل عربی کے ساتھ ساتھ عالمی معیار کی انگریزی نشریات بھی پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو یہ بات ہرگز گوارا نہیں کہ کوئی ابلاغی ادارہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ پالیسیوں اور مظالم کو بے نقاب کرنے کی جرات کرے۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار یاسین عزالدین کا کہنا ہے کہ الجزیرہ ٹی وی چینل کے مقبوضہ فلسطین میں دفاتر کی بندش جذباتی رد عمل کا ثبوت ہے۔ الجزیرہ چینل نے مسجد اقصیٰ پر پابندیوں کو اجاگر کرنے کے لیے جذبات انداز فکر اپنایا۔ جہاں تک الجزیرہ کی بندش کا تعلق ہے تو یہ اسرائیل کی کوئی طے شدہ پالیسی نہیں تھی اور نہ ہی یہ اسرائیلی ریاست کے مفاد میں ہے۔
عرب محور
فلسطینی تجزیہ نگار نواف العامر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ اپنے مخصوص ایجنڈے اور ویژن کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا تک پہنچائے۔ ایسا کوئی اور ادارہ نہیں ہونا چاہیے کو صہیونی ایجنڈے کے خلاف تصویر کا دوسرا رخ پیش کرے۔ الجزیرہ ٹی وی چینل اور دیگر ابلاغی اداروں پر کڑی نظر رکھنے یا انہیں بند کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو مخصوص مواد بالخصوص اسرائیل کے مفاد میں نشریات پیش کرنے پر مجبور کیا جائے۔
ان کاکہنا ہے کہ اسرائیل ذرائع ابلاغ کی آزادی سے خوف زدہ ہے۔ یہ خوف ہی الجزیرہ کی بندش کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ الجزیرہ ٹی وی چینل فلسطین میں اسرائیلی فوج کے خونی جرائم کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مکروہ مظالم کو دنیا سے چھپانے اور فوج کی ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کے لیے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کررہا ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل الجزیرہ کے خلاف اس لیے بھی نفرت کرتا ہے کہ اس چینل نے غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگوں کی بے لاگ کوریج کی اور معصوم فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کودنیا کے سامنے جرات کے ساتھ پیش کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ معرکہ القدس میں بھی الجزیرہ کا جاندار کردار نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل جیسے اداروں کی مساعی سے صہیونی ریاست القدس میں اپنے مذموم عزائم کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی ہے۔
نواف العامر کاکہنا ہے کہ فلسطین میں الجزیرہ کو زیرعتاب لا کر اسرائیل نے قطر کا بائیکاٹ کرنے والی عرب ریاستوں کو یہ پیغام دیا ہے تل ابیب اور ان کے موقف میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یوں فلسطین میں قطری ٹی وی چینل الجزیرہ کی نشریات پر پابندی کا ایک محرک عرب ممالک کی طرف سے الجزیرہ کے حوالےسے پالیسی بھی ہے۔