فلسطینی حکومت کے سابق وزیر برائے القدس امور حاتم عبدالقادر نے باور کرایا ہے کہ آج سے 48 سال قبل سنہ 1969ء کو مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی اسرائیل کی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔ اس سازش کا مقصد قبلہ اول کے تاریخی ’اسٹیٹس کو ‘ تبدیل کرنا اور مقدس مقام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا تھا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر عبدالقادر نے کہا کہ جولائی 2017ء میں بھی اسرائیل نے ایک سازش کے تحت قبلہ اول کو فلسطینی نمازیوں کے لیے بند کیا۔ جس طرح جولائی میں قبلہ اول کو صہیونی دشمن کی طرف سے ایک جارحانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسی طرح اڑتالیس سال پیشتر قبلہ اول کو ایک سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت آگ لگائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ 21 اگست 1969ء فلسطینی اور انسانی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن ہے جس میں ایک یہودی شرپسند نے مسجد اقصیٰ پر آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگائی تھی جس کے نتیجے میں قبلہ اول کو غیرمعمولی نقصان پہنچا تھا۔
سابق فلسطینی وزیر حاتم عبدالقادر نے اسرائیلی ریاست کی طرف سے قبلہ اول کے خلاف سازشوں کے جواب میں فلسطینی قوم کے فولادی عزم کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل ریاستی طاقت کے ذریعے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کررہا ہے اور فلسطینی قوم بے سرو سامانی کے عالم میں اپنی جانوں پر کھیل کر اس کا تحفظ کرتے ہیں۔
حاتم عبدالقادر نے کہا کہ قبلہ اول آج بھی بدستور خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ صہیونی ریاست، اس کے ادارے اور یہودی تنظیمیں سب مل کر مسجد اقصیٰ کے وجود کو ختم کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ فلسطینی محکمہ اوقاف اور مسجد اقصیٰ کے انتظامی امور میں مداخلت کرکے اپنی جابرانہ سیاست مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فلسطینی سیاست دان نے قبلہ اول کے دفاع کے لیے عرب دنیا اور عالم اسلام کی طرف سے کی جانے والی مساعی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ عالم اسلام دفاع قبلہ اول اور القدس کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرسکی ہے۔