فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اسرائیلی زندانوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے والے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’کلب برائے اسیران‘ کو دی جانے والی امداد روک دی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کے اس اقدام پر اسیران کے اقارب کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق امور اسیران کے لیے کام کرنے والے ادارے‘کلب برائے اسیران‘ کے مقرب ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس نے تنظیم سے وابستہ ارکان کو دی جانے والی امداد بند کردی ہے۔ یہ امداد کلب برائے اسیران کے ساتھ کام کرنے والے کارکنوں کی تنخواہوں، دفاتر کے اخراجرات اور دیگر مدات میں دی جاتی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کلب برائے اسیران فلسطینی صدر کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر قائل کرنے لیے تمام ذرائع استعمال کرے گی۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ صدر عباس کے ساتھ امدادی روکے جانے کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کلب برائے اسیران 25 سال سے اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کے حقوق کے لئے کام کررہا ہے۔ اس ادارے کی خدمات کے پیش نظر اس کی امداد روکے جانے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اپنے دورہ امریکا کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد واپسی پر اسیران کے اہل خانہ کو ملنے والی امداد بند کردی تھی جس پر فلسطینی سیران کے اہل خانہ اور دیگر شہریوں کی طرف سے مسلسل احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔