فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کا جنوبی شہر الخلیل سنہ جہاں ہزاروں پرانی تاریخ اور روایات کا امین ہے وہیں اس شہر سے فلسطینی قوم کی جرات ، بہادری، جانثاری، جہاد، عزیمت اور استقلال کی کئی داستانیں بھی وابستہ ہیں۔ اس شہر کے شجر وحجر آج بھی فلسطینیوں کی بہادری اور لازوال قربانیوں کی گواہی دیتے ہیں۔ الخلیل شہر کے وہ تاریخی محلات جو آج بھی اپنی پیرانہ سالی کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کی گود میں کیسے کیسے ہیرو آئے، پرورش پائی اور ملک وقوم کے لیے لازوال قربانیاں دیں اور امر ہو گئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سنہ 1929ء کے انقلاب کے بعد برطانوی استبدادی فوج نے الخلیل کے آزادی کے دو ہیروز عطا الزیر اور محمد جمجوم کو ’عکا‘ نامی جیل میں سزائے موت دی۔ عکا جیل اور اس کے اطراف کی تاریخی عمارتیں، ٹیلے، پہاڑ اور وادیاں ان شہیدوں کی امین ہیں جنہوں نے پہلے برطانوی استبداد اور پھر غاصب صہیونیوں کے ناجائز تسلط کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
الخلیل کے بزرگ آج بھی زمانہ رفتہ کو یاد کرتے ہوئے ان ہیروز کی یادوں اور ان کی قربانیوں کی یاد میں کھو جاتے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الخلیل کے بڑے بوڑھوں نے بتایا کہ شہر کے بیشتر محلات مجاھدین کا مرکز رہتے۔ برطانوی استبداد اور اس کے بعد کے ادوار میں فلسطینی مجاھدین ان محلات میں جمع ہوتے۔ صلاح مشورے کرتے اور ان تاریخی مقامات میں قیام کرتے۔ انہی میں خاص طور پر برطانوی فوج کے ہاتھوں پھانسی کے ذریعے شہید ہونے والے جمجوم اور الزیر کے علاوہ عبدالحلیم الجولانی المعروف ابو زیدان کو سنہ 1936ء میں سزائے موت دی گئی۔ گرفتاری سے قبل وہ الخلیل شہر کے تاریخی محلات کو اپنی تحریکی اور جہادی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔
کئی بار ایسا ہوا کہ برطانوی فوج کے ساتھ براہ راست مقابلہ بھی انہی محلات میں ہوتا۔ فلسطینی مجاھدین کے مقدس خون کے چھینٹے ان محلات کی سیمٹی دیواروں اور اس کے پتھروں پر پڑتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ محلات شہداء کے خون اور ان کی قربانیوں کے گواہ ہیں۔
فلسطینی وزارت ثقافت کی ڈائریکٹر ھدیٰ عابدین نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس محل میں الخلیل کلچر سینٹر کا دفتر قائم ہے وہ فلسطینی قوم کے تاریخی ورثے کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محل ان کے نانا نے تیار کرایا اس کی تعمیر سنہ 1933ء میں الحاج احمد حسن الصغیر نے کی۔ سنہ 1936ء کے انقلاب کے دوران یہ محل مجاھدین کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ چونکہ یہ محل شہر کے انتہائی خوبصورت اور پرفضاء مقام پر تعمیر کیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ اسے دیکھنے لوگ دور دور سے آتے۔ اس کے اطراف میں کھجور، انجیر، زیتون کے سرسبزو شاداب باغات ہیں۔ یہاں کہ صاف ستھری،فرحت بخش اور صحت افزا ہوا آج بھی زندہ دلان الخلیل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
ھدیٰ عبادین نے بتایا کہ سنہ 1936ء میں ان کے نانا الحاج احمد الصغیر کا محل مجاھدین کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ شہر کی اہم شخصیات روزانہ یہاں جمع ہوتیں اور صہیونی خطرے کا مقابلہ کرنے اور برطانوی استبداد سے نجات کے لیے صلاح مشورے کیے جاتے۔
دیگر تاریخی عمارتیں
الخلیل شہر کے باب الزاویہ میدان اور اس کے اطراف کو تاریخی محلات کا مقام قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں پر بعض عمارتیں تو 6000 ہزار سال پرانی ہیں۔ پرانی رہائش گاہیں، قلعے، دکانیں اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہونےوالی عمارتوں میں الحاج عیسیٰ کردیہ، الصفدی خاندان اور آل سعید خاندان، پرانا ہوٹل اور پولیس ہیڈا کواٹر یہاں پر ہی واقع ہیں۔ یہاں پر ’بلاط الرشید‘ کے نام سے ایک تاریخی عمارت قائم ہے۔ 86 سالہ الحاج عبدالرزاق التمیمی المعروف ابو اسعد نے بتایا جہاں تک انہیں یاد پڑتا ہے بلاط الرشید ہوٹل انقلابی کارکنوں کا ہیڈ کواٹر تھا۔ اس کے علاوہ اسے عرب سپریم کمیٹی کے صدر دفتر کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ عرب سپریم کمیٹی کی اس قیادت الحاج امین الحسینی کے ہاتھ میں تھی۔
التمیمی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلاط الرشید ہوٹل میں مجاھدین جمع ہوتے، یہیں پر عرب سپریم کونسل کی قیادت بھی ہوتی۔ وہ مختلف مزاحمتی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے۔ الحاج امین الحسینی کی طرف سے الخلیل شہر کے باشندوں کو انقلاب کی حمایت کی تاکید کی جس کے بعد بڑی تعداد میں مجاھدین ان کے کہنے پر بلاط الرشید ہوٹل میں آنے لگے۔
بلاط الرشید ہوٹل سے چند فرلانگ پر حارۃ القزازین واقع ہے، اس کے ساتھ بدران ہوٹل جو ممالک کے دور میں تعمیر کی گئی ایک قدیم عمارت ہے۔
تاریخی عمارتوں کے عینی شاہد 88 سالہ الحاج ابو اسنینہ نے فلسطینی انقلابی لیڈر الحاج امین الحسینی اکثر بدران ہوٹل کی عمارت میں قیام کرتے۔ مسجد ابراہیمی میں نماز ادا کرتے۔ جب وہ الخلیل شہر میں آئے تو شہر کے اعیان وانصار جن میں الشیخ محمد علی الجعبری، الشیخ عبدالحی عرفہ، الشیخ ابو اسنینہ، یوسف عمرو اور عوام کے جم غفیر نے ان کا استقبال کیا۔