امریکی حکومت کے عتاب کی شکار ایک فلسطینی خاتون رہ نما رسمیہ العودہ کی امریکی شہریت منسوخ کیے جانے اور امریکا سے جلا وطنی کے بعد وہ اردن کے دارالحکومت عمان پہنچ گئی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق 70 سالہ رسمیہ العودہ نے امریکی شہریت حاصل کی تھی مگر کچھ عرصہ قبل امریکی پولیس نے انہیں حراست میں لیا اور ان پر الزام عاید کیا کہ اس نے شہریت کے لیے دی گئی درخواست میں اس بات کو مخفی رکھا تھا کہ آج سے پانچ عشرے قبل ایک فدائی حملے میں معاونت اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتاری بھی ہوئی تھی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ رسمیہ العودہ نے امریکی شہریت کے لیے جو کاغذات اور دستاویزات جمع کرائی تھیں ان میں کسی کیس میں ملوث ہونے کا کوئی ریکارڈ شامل نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس نے بتایا تھا کہ وہ اسرائیل میں فدائی حملے میں معاونت کے الزام میں گرفتار بھی رہ چکی ہے۔
خیال رہے کہ رسمیہ شعبان پر سنہ 1969ء میں دو یہودی آباد کاروں کو قتل اور متعدد کو زخمی کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم اسے 10 سال کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔ سنہ 1979ء میں اسرائیل اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے درمیان طے پائے قیدیوں کے معاہدے کے تحت رسمیہ کو فلسطین سے بے دخل کرکے اردن بھیجے جانے کی شرط پر رہا کیا تھا۔ سنہ 1995ء میں وہ امریکا منتقل ہوئیں جہاں انہوں نے امریکی شہریت کے لیے درخواست دی تھی۔ وہ امریکا میں عرب نیٹ ورک کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں۔
سنہ 2014ء میں امریکی پولیس نے انہیں حراست میں کے بعد غیرقانونی طریقے سے امریکی شہریت کے حصول کے الزام میں مقدمہ چلایا۔ اس پر عودہ پر الزام عاید کیا گیا تھا کہ اس نے امریکی حکام کو یہ نہیں بتایا کہ اس نے دو صہیونیوں کو قتل کیا اور اس کے الزام میں اسے قید بھی ہوئی تھی۔ اس لیے اس نے غیرقانونی طریقے سے امریکی شہریت حاصل کی۔
دو ستمبر کو رسمیہ العودہ کو رہا کرنے کے بعد دوبارہ اردن بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسے گذشتہ روز امریکا سے بے دخل کردیا گیا۔