فلسطین کے تاریخی شہر اور عالم اسلام کے ثقافتی مرکز مقبوضہ بیت المقدس کو غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں لاحق خطرات کو اجاگر کرنے کے لیے ترکی میں ایک عالمی کانفرنس آج دوسرے روز بھی جاری ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ ’القدس انٹرنیشنل کانفرنس‘ کے لیے ’القدس ماضی، حال اور مستقبل‘ کا عنوان چنا گیا ہے۔ یہ کانفرنس کل ہفتے کے روز شروع ہوئی تھی جس میں ترکی، فلسطین، عرب اور مسلمان ممالک سے علماء اور دیگر سرکردہ شخصیات کی بڑی تعداد شرکر کر رہی ہے۔
کانفرنس سے افتتاحی خطاب میں عمرانیہ شہر کے میئر حسن جان نے کہا کہ بیت المقدس پر ہم آج کے دور میں بہت بڑا ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ جس قدر بیت المقدس پر ظلم آج ہو رہا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے فلسطینی عالم دین اور مسجد اقصیٰ کے خطیب الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ اگرچہ دو الگ الگ نام ہیں مگر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایمان، عقیدے اور تہذیب کا ایک ہی رشتہ ہے جو انہیں آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔
الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ ترک کی عثمانی خلافت کے دور کے آثار اور باقیات آج بھی بیت المقدس میں موجود ہیں۔ یہ شہر 15 صدی ھجری سے اسلامی خلافت کا حصہ ہے اور تا ابد یہ اسلام ہی کا مرکز رہے گا۔ اس کی تربت میں کئی جلیل القدر صحابہ کرام آسودہ خاک ہیں۔
ترکی کے مذہبی امور کے وائس چیئرمین یغوث انال نے کہا کہ بیت المقدس کی شناخت اس میں موجود عبادت گاہوں کی درو دیوار پر منقش ہے۔ یہ مسلم امہ کا قلب، مسلماںوں کے وقار کی علامت اور کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔
کانفرنس سے خطاب میں الجزائری سیاست دان اور پارلیمان برائے القدس گروپ کے چیئرمین جار اللہ نے کہا کہ ان کی تنظیم القدس شریف کی خدمت کے لیے پوری دنیا میں سرگرم عمل ہے۔ ہم مختلف ملکوں کے ارکان پارلیمان کو بیت المقدس سے جوڑنے اور ان کے القدس دوروں کے لیے اہتمام کرتے ہیں تاکہ القدس کو لاحق خطرات سے دنیا کو آگاہ کیا جا سکے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کانفرنس میں ترکی، سعودی عرب، مصر، اردن، الجزائر، مراکش، لبنان اور شام سے اہم شخصیات نے شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں بیت المقدس کی تاریخ، اس کی اسلامی ثقافتی اہمیت، اس کےاسلامی تشخص پر روشنی ڈالنے کےساتھ اسے صہیونیوں کے ہاتھوں لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی۔