انسانی حقوق کی تنظیموں نے فلسطینی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے وسط میں قائم ’تل السکن‘ نامی پانچ ہزار سال پرانے تاریخی مقام پر مکانات کی تعمیر کا سلسلہ فوری طورپربند کردیں،کیونکہ یہ تاریخی مقام فلسطین کے تاریخی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے جسے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے ’یونیسکو‘ نے بھی عالمی ثقافتی ورثے کاحصہ قرار دے رکھا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی میں الزھراء کے مقام پر سامنے آنے والے آج سے پانچ ہزار سال پرانے کنعانی دور کے کھنڈرات پر سرکاری ملازمین کے لیے مکانات کی تعمیر کی کوششیں شروع کی گئی ہیں جہاں ان کی کھدائی جاری ہے۔
برطانیہ میں قائم ’عرب ہیومن رائٹس آرگنائزیشن‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ اطلاعات ہیں کہ فلسطینی حکام ’تل السکن‘ جیسے ہزاروں سال پرانے تاریخی مقام پر سرکاری ملازمین کے لیے مکانات تعمیر کرنے کے لیے کھدائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تل السکن ایک تاریخی مقام ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے اسے یونیسکو نے اپنے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تل السکن کو رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کرنا فلسطین کو ایک اہم تاریخی اور تہذیبی خزانے سے محروم کرنا ہے۔ تل السکن کی تاریخی ار تہذیبی اہمیت کے لیے فلسطینی حکومت کی طرف سے کسی قسم کے سرٹیفکیٹ کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہاں سے ملنے والے آثار قدیمہ اور قدیم دور کے مکانوں کے کھنڈرات ہی اس کی اہمیت کے لیے کافی ہیں۔
خیال رہے کہ تل السکن نامی مقام کو آج سے پانچ ہزار سال پرانا کنعانی دور کا شہر قرار دیا جاتا ہے۔ سنہ 1998ء میں فلسطینی حکومت اور فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ نے مل کروہاں پر کھدائی شروع کی تھی، بعد ازاں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا تھا۔ اسرائیلی پابندیوں کے باعث ماہرین آثار قدیمہ تو وہاں پر کوئی کام نہیں کرسکے تاہم پتا چلا ہے کہ فلسطینی حکومت اس جگہ پر سرکاری ملازمین کے لیے مکانات تعمیر کررہی ہے۔ سنہ 2015ء کے بعد جن ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی گئی تھیں انہیں اس تاریخی جگہ سے زمین الاٹ کی جا رہی ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے اس تاریخی مقام کی اہمیت پر الگ سے ایک تفصیلی رپورٹ میں بھی روشنی ڈالی ہے۔