ستمبر کا مہینا آتے ہی فلسطینی قوم کے زخم ایک بار پھر تازہ ہوجاتے ہیں۔ ستمبر سنہ 1982ء میں لبنان میں فلسطینیوں کے صبرا اور شاتیلا پناہ گزین کیمپ میں صہیونی فوج اور لبنانی گماشتوں نے مل کر ہزاروں فلسطینی پناہ گزینوں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کردیا تھا۔ شہداء میں بیشتر عام شہری، بچے، بوڑھے اور خواتین شامل تھیں۔ اس کارروائی کا ماسٹر مائنڈ سابق اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون کو قرار دیا جاتا رہا ہے، جس کے ایک منصوبے کے تحت نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں پر ٹینکوں اور توپ خانے سے حملہ کرنے کے بعد اپنی فوج کیمپ میں داخل کر دی تھی۔
حال ہی میں امریکی جریدہ ’دی نیشن‘ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سنہ 1982ء میں لبنان کے دارالحکومت بیروت کے قریب فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام میں امریکا بھی ملوث تھا۔
فلسطینی مورخ رشید خالدی نے فلسطینیوں کے قتل عام کے اس وحشیانہ واقعے میں امریکا کے ملوث ہونے کے شواہد پیش کیے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کو اس بات کا پیشگی علم تھا کہ اسرائیلی فوج لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر جارحیت کی تیاری کرچکی ہے۔ امریکا کے خصوصی مندوب موریس ڈراپر نے مجرم صہیونی فوجی عہدیدار ارئیل شیرون سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں شیرون نے امریکی مندوب کو بتایا کہ وہ صبرا اور شاتیلا پناہ گزین کیمپ میں فوجی کارروائی کرکے وہاں پر موجود تمام افراد کو قتل کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ کیمپ میں کسی انسان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے، نہ کسی بچے کو اور نہ ہی کسی خاتون کو زندہ چھوڑا جائے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کو فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر چڑھائی کا نہ صرف علم تھا بلکہ امریکا نے نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے شیرون کو اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔ رشید خالدی کا کہنا ہے کہ صہیونی فورسز نے اس وقت کیمپ کی طرف پیش قدمی شروع کی جب امریکا نے اس کے لیے کلین چٹ دے دی۔
اس دوران امریکی وزارت خارجہ تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندوں کو مذاکرات کرنے اور سیز فائر پر مجبور کرتے رہے اور انہیں یقین دلاتے رہے کہ انہیں کسی قسم کا گزند نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ فلسطینی نمائندوں نے جنگ بندی کردی تھی۔ اس جنگ بندی کے ایک ماہ کے بعد امریکی اپنے وعدوں سے پھر گئے اور انہوں نے صہیونی ریاست کو فلسطینی پناہ گزینوں کے قتل عام کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس میں مکمل معاونت کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق پانچ اگست کو امریکی انتظامیہ نے لبنانی حکومت اور تنظیم آزادی فلسطین کو ایک مراسلہ بھیجاجس میں کہا گیا تھا کہ امریکا ان تمام فلسطینیوں کو جو جنگجو نہیں اور قانون پر عمل درآمد کرتے کو امن اور تحفظ کے ساتھ رہنے کی حمایت کرتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا اور لبنانی حکومت دونوں صبرا وشاتیلا پناہ گزین کیمپ کی ضمانت بھی دینے کو تیار ہیں مگر امریکا کے اس اعلان اور ضمانتوں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسرائیل نے کیمپ پر فوج کشی کردی تھی۔