مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں موجود ایک امریکی سفارتی ذریعے نے صڈر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل کے لیے مجوزہ پلان کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جسے’حتمی ڈیل‘ یا عرب میڈیا میں ’صدی کا فیصلہ‘ قرار دیا جا رہا ہے جلد ظہور پذیر ہو گا۔
’العربی الجدید‘ ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کے تیار کردہ پلان میں اسرائیل کو سنہ 1967ء کے عرب علاقوں سے مرحلہ وار انخلاء کی تجویز شامل ہے۔ پہلے مرحلے میں غزہ کی پٹی اور فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام غرب اردن کے علاقوں پر مشتمل ایک عارضی ریاست قائم کی جائے گی۔ اس کے بعد فریقین میں مذاکرات کے متعدد ادوار میں اسرائیل مرحلہ وار غرب اردن اور دوسرے فلسطینی علاقوں سے پیچھے ہٹتا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں فلسطینی اتھارٹی کو غزہ اور غرب اردن کے ان علاقوں جہاں اس کا انتظامی کنٹرول قائم ہے میں عمل داری کے 100 فی صد اختیارات دیئے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے ’تاریخی‘ پلان میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے معاملے کو آخری مراحل میں شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔
اسی حوالے سے حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کے ایک ذمہ دار ذریعے نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ توقع ہے کہ قاہرہ میں ایک وسیع تر اجلاس بلایا جائے جس میں اسرائیل، اردن اور فلسطین کے نمائندے شرکت کریں۔ یہ اجلاس فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے معاہدے اور فلسطین میں مخلوط قومی حکومت کے قیام کے بعد ہی بلایا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے امن منصوبے پر سعودی عرب نے اپنا رد عمل جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ 2002ء میں قضیہ فلسطین کے حل کے حوالے سے پیش کردہ عرب امن فارمولے سے دست بردار ہونے کو تیار ہیں۔ عرب امن فارمولہ سابق سعودی فرامانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے پیش کیا تھا جس میں اسرائیل سے سنہ 1967ء کے عرب علاقوں سے فوری طورپر نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مصری ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کسی بھی امن فارمولے پرعمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو ہیں۔ تاہم تازہ امریکی امن فارمولہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد گریڈ کوشنر نے اپنے جون کے دورہ اسرائیل کے بعد تیار کیا تھا۔
امریکی صدر کے داماد اور خصوصی مشیر گریڈ کونشر نے 21 جون کو دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔