حماس نے سنہ 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے پہلے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کے باوجود حماس پہلے روز سے اب تک ایک نہ ختم ہونے والی الجھن کا شکار ہے۔ یہ الجھن اور کشمکش اس وقت پیدا ہوئی جب حماس کو ایک ہی وقت میں حکومت و سیاست اور مزاحمت میں ہم آہنگی پیدا کرنےکی مشکل پیش آئی۔ کیونکہ فلسطین کے سرکاری موقف اور علاقائی اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو قبول نہیں کیا جاتا۔
حماس پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوکر ملک میں حکومت کی تشکیل کی پوزیشن میں آ گئی۔ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود شروع دن سے حماس فلسطین میں تمام جماعتوں کی نمائندہ قومی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں رہی۔ قومی حکومت کے قیام کی کوششوں کے باوجود اس مشن میں کئی رکاوٹیں سامنے آئیں۔اس حوالے سے محمد دحلان کے بیانات ریکارڈ پرموجود ہیں۔
کئی طرح کی داخلی اور خارجی پیچیدگیوں اور رکاوٹوں کے باعث حماس کو حقیقی معنوں میں حکومت کرنے کا موقع نہیں مل پایا۔ ان رکاوٹوں میں ایک بڑی مشکل فلسطینیوں میں پائی جانے والی ناچاقی، غزہ کی ناکہ بندی، حماس کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہ کیا جانا جیسے مسائل بحران کی شکل میں سامنے کھڑے تھے۔ حتیٰ کہ حماس کو یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے اسے حکومت اور مزاحمت میں سے کوئی ایک آپشن قبول کرنا ہے۔
آخر کار حماس کی قیادت اجتماعی طور پراس نتیجے پر پہنچی کہ جماعت کوغزہ کی پٹی کے اقتدار سے مطلق الگ کردیا جائے یا غزہ کے محاصرے کے اثرات ختم کرنے کے لیے غزہ کا بوجھ اتفاق رائے سے تشکیل پانے والی حکومت کے سپرد کیا جائے۔
ایک یہودی دانشور ماٹن اینڈیک نے سنہ 2005ء میں فلسطین میں انتخابات سے پہلے کہا تھا کہ ’حماس سے نمٹنے کا بہتر فیصلہ یہ ہے کہ اسے کسی نا کسی طرح اتھارٹی کا حصہ بنایا جائے، تاکہ ہم اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال سکیں۔ اس پر دباؤ ڈال سکیں۔ جب تک حماس ایک مزاحمت تحریک کے طور پرعالمی دنیا سے رابطے سے باہر رہے گی تو اس کی قوت اور طاقت مسلسل بڑھتی جائے گی‘۔
راقم چند سال پیشتر اپنے ایک مضمون میں یہ لکھ چکا ہے کہ حماس کو لبنانی حزب اللہ کے تجربات سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس کا ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ تعلق بھی قائم ہے اور وہ اپنے حجم کے مطابق ان اداروں اور ریاستی امور میں اثرو نفوذ بھی رکھتی ہے۔ براہ راست حکومت کا حصہ ہے۔ حزب اللہ حکومت کو اور حکومت حزب اللہ کو ایک دوسرے کے لیے بوجھ نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پر نتائج بھی مختلف ہیں۔
اگر انصاف کی بات کروں تو سچ یہ ہے کہ حماس کے فیصلے غالبا اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہیں۔ حماس کو دباؤ، جنگوں، غزہ کی ناکہ بندی اور غرب اردن میں جماعت کو دیوار سے لگانے کے اقدامات حماس کے فیصلوں پر اثرا انداز ہوتے ہیں۔
غزہ پر حکومت کے دوران حماس نے اپنے عسکری ونگ کو کافی مضبوط کیا ہے۔ القسام بریگیڈ فیصلے کرنے میں کافی حد تک با اختیار ہے۔ اس کے پاس ایسا حفاظتی والو موجود ہے جو روکنے اور رکوانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حماس کے پاس لمحہ موجود میں ماضی کا باریکی سے تجزیہ کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ماضی کے حالات، سیناریو اور تازہ دستیاب آپشنز کو سامنے رکھ کر حماس کو فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ فلسطینی قوم مزید بے چینی اور انتطار کی متحمل نہیں ہوسکتی۔