فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور فتح موومنٹ کے درمیان طے پانے والے مفاہمتی معاہدے اور اس کے نتیجے میں قومی حکومت کی تشکیل کے تمام مراحل کو اسرائیل باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ فلسطینیوں میں مفاہمتی کوششوں کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر اسرائیل میں ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی اخبار ’المصدر‘ کے مطابق عبرانی ذرائع ابلاغ نے فلسطینیوں میں مفاہمت اور قومی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو غیرمعمولی کوریج دی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں بھی فلسطینیوں میں مفاہمت کے بارے میں بحث جاری ہے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک اسرائیلی وزیراعظم یہ باور کرانے کی کوشش کررہے تھے کہ فلسطین میں دو الگ الگ حکومتیں غزہ اور مغربی کنارے میں قائم ہیں۔ جب تک فلسطینیوں میں اتفاق رائے نہیں ہوجاتا اس وقت تک فلسطینیوں سے کسی قسم کی بات چیت بے سود ہے۔ مگر اب فلسطینیوں میں مفاہمت کے اعلان کے بعد نیتن یاھو کے پاس اپنےاس دعوے کو آگے بڑھانے کا کوئی جواز نہیں رہا ہے۔
اخبارات کے مطابق اسرائیلی حکومت فلسطینیوں میں مفاہمت کو صبر اور انتظار کےساتھ دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ مفاہمت بھی ماضی کی ناکام مفاہمتی معاہدوں کی طرح ناکامی سے دوچار ہوتی ہے تو اسرائیل کو اس سے کوئی پرواہ نہیں ہے۔
فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کامیاب ہوتی ہے تو اسرائیل کے پاس متعدد آپشن ہوں گے۔ پہلے تو اسرائیل عالمی برادری سے کہے گا کہ وہ صدر محمود عباس کے سات اس لیے بات چیت نہیں کرسکتے کہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم [حماس] کے ساتھ شریک اقتدار ہیں، اس لیے اسرائیل محمود عباس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی پر پابندیاں عاید کرے گا۔
اسرائیلی تجزیہ نگار عاموس ہرئیل کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ فلسطینیوں میں مفاہمت کے بعد غزہ کی سرحد پر امن وامان کی صورت حال بہتر ہوگی تاہم اس کے باوجود بہت سے سوالیہ نشان اپنی جگہ موجود رہیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں میں مفاہمت کے بہت سے پہلو ابھی تک پردہ راز میں ہیں۔ اسرائیل کے پاس یہ سوال موجود رہے گا کہ حماس کے اس اسلحہ ذخیرہ کا کیا بنے گا جو اس نے اسرائیل کے خلاف جمع کررکھا ہے۔