امریکی اتحادیوں سمیت عالمی طاقتوں نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی معاہدے کی پاسداری کریں گے جس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ اسے ختم کر ڈالیں گے۔ عالمی طاقتوں کی طرف سے ایران کی حمایت ٹرمپ کے منہ پر زور دار طمانچہ قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے جمعے کو کہا تھا کہ وہ معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ‘ہمارے مشترکہ قومی اور سلامتی مفاد میں ہے۔’ یورپی یونین نے کہا ہے کہ کوئی ایک ملک کسی قابلِ عمل معاہدے کو ختم نہیں کر سکتا۔
برطانوی وزیراعظم تھریسا مے، جرمن چانسلر انجیلا میریکل اور فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے اپنے اپنے الگ بیانات میں کہا کہ وہ ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ ان کا مشترکہ موقف صدر ٹرمپ کے لیے ایک دھچکا ہے جو ہرصورت میں تہران کے ساتھ معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکہ ‘پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہے۔’
انھوں نے پوچھا: ‘کیا کوئی صدر کثیر قومی بین الاقوامی معاہدے کو ازخود ختم کر سکتا ہے؟
‘شاید انھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ معاہدہ صرف ایران اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے۔’
ادھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی حکومت کو ’جنونی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایران نے 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
البتہ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران سنہ 2015 میں ہونے والے معاہدے کے بعد سے جوہری پروگرام کو بند کرنے پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ انتہائی نرم ہے اور ’ایران کئی مرتبہ اس کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔‘
امریکی صدر کے مطابق ’ایران موت، تباہی اور افراتفری پھیلا رہا ہے۔‘
ان کی تقریر کے کچھ دیر بعد یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ یہ معاہدہ انتہائی طاقتور ہے اور اس کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔‘
فیڈریکا موگیرینی نے کہا ’اس معاہدے کو ختم کرنے کی طاقت دنیا کے کسی صدر کے پاس نہیں ہے۔ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے بنایا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایران، امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے ساتھ ساتھ جرمنی کے درمیان ہونے والے معاہدے کو نہ چھورنے کے لیے اندرونی اور بیرونی دباؤ تھا۔