اسرائیلی حکومت نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں قائم ’بیت ایل‘ کالونی میں یہودی آباد کاروں کے لیے مزید 300 گھروں کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔
عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی 7 کی رپورٹ کے مطابق رام اللہ میں تین سو نئے مکانات کی تعمیر کا وعدہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے گذشتہ جون میں مقامی یہودی قیادت کےساتھ کیا تھا۔ اسی وعدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے یہ مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ تمام مکانات رام اللہ کی ’بیت ایل‘ کالونی میں تعمیر کیے جائیں گے۔
دوسری جانب بیت ایل یہودی کالونی’بیت ایل‘ کے چیئرمین سی آلن نے نئے مکانات کی تعمیر کا خیر مقدم کیا ہے۔
ٹی وی رپورٹ میں کہا گی ہےکہ رام اللہ کی بیت ایل کالونی کی طرح اندرون فلسطین میں ریشون لیٹزیون، کفار سابا اور رعنانا میں بھی مزید مکانات کی تعمیر کی منظوری دی جائے گی۔
یہودی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہمیں بیت ایل ، عوفرا اور فرات کالونیوں میں بھی نئے مکانات تعمیر کرنا ہوں گے۔
رام اللہ میں مکانات کی تعمیر کی یہ منظوری ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں یہودیوں کو بسانے کے لیے مزید 1300 مکانات کی تعمیر کا پلان تیار کیا ہے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم اور یہودی آباد کاری کی مخالف ’اب امن‘ کی عہدیدار حاگیٹ اووران نے کہا ہے کہ حکومت غرب اردن کے تمام شہروں میں 1292 نئے مکانات تعمیر کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے مسز اووران نے کہا کہ متوقع طور پر آج بدھ کو اسرائیلی کابینہ غرب اردن میں 1292 نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دے گی۔ یہ منصونہ 4000 مکانات کی تعمیر حصہ ہے، جس کا فیصلہ پہلے کیا جاچکا ہے۔
خیال رہے کہ صہیونی حکومت نے سنہ2002 کے بعد پہلی بار غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں 31 نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔
ادھر فلسطینی تجزیہ نگار اور یہودی آباد کاری کے امور کے ماہر خلیل تفکجی نے کہا ہے کہ اسرائیل غرب اردن میں مزید 10 لاکھ یہودیوں کو بسانے کی تیاری کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں بڑے پیمانے پر توسیع پسندانہ منصوبے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں عملی رکاوٹ کھڑی کرنے کی سازش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صہیونی حکومت نے 1979ء میں غرب اردن میں یہودی آباد کاری کے پلان کے تحت 2020ء تک علاقے میں یہودیوں کی تعداد ایک ملین کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔