چهارشنبه 30/آوریل/2025

مصالحت پر اسرائیلی شرائط، فلسطینی اتھارٹی کا رد عمل مایوس کن

بدھ 18-اکتوبر-2017

فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کے ترجمان نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی دھڑوں میں طے پائے مصالحتی معاہدے کے رد عمل میں کہا ہے کہ قومی مصالحت بہت بڑا قومی مفاد ہے تاہم انہوں نے اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ شرائط کو مسترد کرنے کے بجائے صرف اتناکہا کہ انہیں ان شرائط پر ’تحفظات‘ ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی دھڑے کسی دباؤ میں آئے بغیر قومی مصالحت کا عمل آگے بڑھاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر محمود عباس کا موقف فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کو آگے بڑھانا اور قومی امنگوں کے مطابق آزادی کے حصول کے لیے قوم میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔

فلسطینی ایوان صدر کے ترجمان نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مصالحت کو قبول کرنے کے لیے پیش کردہ سات شرائط پر کھل کر بات نہیں کی اور نہ ہی ان شرائط کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اسرائیلی شرائط پر انہیں تحفظات ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی زیرصدارت کابینہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ فلسطینی مفاہمت کو سات شرائط پوری ہونے کی صورت میں قبول کیا جاسکتا ہے۔ اول یہ کہ فلسطینی قومی اتحاد امریکا، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر مشتمل گروپ چار کی شرائط تسلیم کرے، حماس ہتھیار پھینک دے، یرغمال بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کوغیر مشروط طورپر رہا کرے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی اتھارٹی کو مکمل طور پر اختیارات سونپے، ایران سے تعلقات ختم کرے اور غرب اردن میں حماس کے عسکری ونگ کے ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو فری ہینڈ دیا جائے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی حکومت کے ترجمان اووی جندلمن نے کہا کہ فلسطینی مصالحت قبول کرنے اور فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے ہماری شرائط واضح ہیں۔ مذکورہ سات شرائط پوری ہونے کے بعد ہی اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت پرآمادہ ہو سکتا ہے
۔
ترجمان نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے علاقے میں امدادی سامان کی ترسیل صرف فلسطینی اتھارٹی کے متعلقہ حکام کے توسط سے کی جائے گی۔

 

مختصر لنک:

کاپی