کئی سال تک دھمکیوں کے بعد آخر امریکا نے صہیونی ریاست کی خوش نودی کے لیے اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم ’یونیسکو‘ کا بائیکاٹ کردیا۔ امریکا نے الزام عاید کیا کہ ’یونیسکو‘ اپنے اصولی طریقہ کار پرعمل درآمد کے بجائے سیاست میں آلودہ ہوچکی ہے۔ تنظیم کاموقف اب غیرمتوازن ہے اور اس نے اسرائیل کے خلاف ایک طے شدہ پالیسی کے تحت انتقامی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
امریکا کی جانب سے ‘یونیسکو‘ کا بائیکاٹ اس وقت کیا گیا جب تنظیم نے فلسطین کے تاریخی شہر الخلیل کو عالمی اسلامی ثقافتی ورثہ کے طور پرتسلیم کیا۔ اس فیصلے کا مقصد صہیونی ریاست کو الخلیل شہر کو یہودیانے اور اس کی تاریخی، اسلامی اور عرب شناخت مٹانے سے روکنا ہے۔
امریکی تضاد
امریکا کی جانب سے ’یونیسکو‘ کا بائیکاٹ واشنگٹن کی ماضی کی پالیسیوں سے کھلا انحراف اور تضاد ہے۔ یونیسکو عالمی ادارہ ہے اور اس کی تشکیل میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ 1946ء میں امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
امریکی فیصلے پر پہلے تو صہیونی ریاست کی لیڈر حیران رہے تاہم فورا ہی وزیراعظم نیتن یاھو نے امریکی فیصلے کو’اخلاقی اور جرات مندانہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیلی وزارت خارجہ کو ہدایات جاری کیں کہ وہ بھی ’یونیسکو‘ کے بائیکاٹ کے لیے روڈ میپ تیار کرے۔
امریکا کی جانب سے عالمی ثقافتی ادارے کے بائیکاٹ کے مقاصد کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بائیکاٹ کے فیصلے کا امریکا اور اسرائیل ہی کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔
اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے اقتصادی تجزیہ نگار سیفر پلوزکر کا کہنا ہے کہ اسرائیل حتمی طور پر یونیسکو سے باہر نہیں نکلے گا کیونکہ نیتن یاھو بہ خوبی جانتے ہیں کہ انہیں اس بائیکاٹ کی کتنی قیمت چکانا ہوگی۔
بلوزکر کا کہنا ہے کہ امریکا ماضی میں بھی یونیسکو کا بائیکاٹ کرچکا ہے۔ امریکی حکومت نے متعدد بار یونیسکو کے فنڈز بھی بند کیے مگر اس کا ’یونیسکو‘ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور وہ کمی عرب ممالک کی فنڈز نے پوری کردی تھی۔
اس سے قبل امریکا 1984ء میں ’یونیسکو‘ سے باہر ہوا ، تاہم صدر بش کے دور میں وہ دوبارہ اس میں شامل ہوگیا۔ بعد ازاں سنہ 2011ء میں امریکا نے ’یونیسکو‘ کے 80 ملین ڈالر فنڈز روک لیے جو کہ تنظیم کے کل بجٹ کا 22 فی صد رقم تھیمگر اس کے باوجود ’یونیسکو‘ کی پالیسی فلسطین بارے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
سنہ 2015ء کے بعد سے اب تک ’یونیسکو‘ فلسطینیوں کی حمایت میں 5 قرار دادیں منظور کرچکی ہے۔ ان میں اہم ترین قرارداد غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کو اسلامی تاریخی ورثے کی حیثیت سے شامل کرنا بھی ہے۔ اس سے قبل ’یونیسکو‘ دیوار براق کو فلسطینیوں اور اسلامی تاریخ کا اہم تاریخی ورثہ قرار دے چکی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار علی ابو الکامل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست اب بھی فلسطین کے اہم تاریخی مقامات کی شناخت مٹانے کی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل چاہے ’یونیسکو‘ سے باہر ہو یا اس میں شامل رہے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آتی دکھائی نہیں دیتی۔
سیاسی بلیک میلنگ
اردن کے میڈیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر بااسم الطویسی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امریکا نے پہلی بار ’یونیسکو‘ کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ اس سے قبل سنہ 1984ء میں بھی امریکا نے ’یونیسکو‘ کو بلیک میل کرنے کے لیے اس کا بائیکاٹ کردیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2003ء میں امریکی حکومت نے ’یونیسکو‘ کے فنڈز روک دیے، کچھ عرصے کے بعد وہ فنڈز بحال کیے گئے مگر سنہ 2011ء میں دوبارہ امریکی حکومت نے ’یونیسکو‘ کا بائیکاٹ کیا۔ یہ بائیکاٹ فلسطینی مملکت کو رکنیت دینے کے رد عمل میں کیا گیا تھا۔
الطویسی کا کہنا ہے کہ سنہ 1975.76ء میں بھی امریکا نے صہیونی ریاست کے مطالبے پر ’یونیسکو‘ کے فنڈز روک دیے تھے۔
ہر بار امریکا نے ’یونیسکو‘ کو سیاسی طور پر بلیک میل کرنے کے لیے کبھی اس کے فنڈز بند کیےاور کبھی تنظیم کا بائیکاٹ کیا تاہم امریکی اور صہیوبی لابی کی تمام تر چالوں کے باوجود ’یونیسکو‘ اپنے اصولوں پر قائم ہے۔
ٹرمپ کی ’یونیسکو‘ کو تنہا کرنے کی پالیسی
یہ تو صاف ظاہرہے کہ امریکا نے ’یونیسکو‘ کا بائیکاٹ صرف صہیونی ریاست کے دفاع کے لیے کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یونیسکو سے اخراج کا فیصلہ کرکے دراصل ’یونیسکو‘ کو تنہا کرنے کی پالیسی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی صدر نے ’سب سے پہلے امریکا‘ کا نعرہ لگایا مگر ان کے اقدامات اور صہیونی ریاست کی حمایت میں فیصلوں سے لگتا ہے کہ وہ ’سب سے پہلے اسرائیل‘ کے فیصلے پرقائم ہیں۔
صدر ٹرمپ کی ہرطرف بائیکاٹ کی پالیسی خود امریکا کو دنیا میں تنہا کررہی ہے۔ مثال کے طور پرٹرمپ نے چند ماہ قبل عالمی برادری، لاطینی امریکا اور یورپی ملکوں کے ساتھ طے پائے ماحولیاتی معاہدے سے علاحدگی اختیار کرلی۔ اعلان پیریس سے علاحدگی کے بعد ٹرمپ ایران کے جوہری پروگرام طے پائے معاہدے سے الگ ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنہائی پسندانہ پالیسی سے امریکا عالمی اداروں میں تنہا ہو کر رہ جائے گا۔ امریکا چاہے جتنا زور لگا لے وہ ’یونیسکو‘ میں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ ’یونیسکو‘ کے فیصلے جمہوری اور انسانی حقوق کی بنیادوں پر ہونے کے ساتھ ساتھ حقائق کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ امریکی دباؤ کے باوجود ’یونیسکو‘ نے فلسطینی مملکت کو مستقل رکنیت کا درجہ دیا۔ دیوار براق کو اسلامی تاریخی اور فلسطینی تہذیبی ورثہ قرار دیا۔ حال ہی میں الخلیل شہر کو فلسطینی تاریخی ورثے کے طور پرقبول کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ امریکا ، اسرائیل کا کسی دوسرے ملک کے دباؤ میں آئے بغیر فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہے۔