امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے پر غور کررہے ہیں۔ اگر امریکی صدر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں تو یہ اقدام مشرق وسطیٰ کے لیے برسوں سے جاری امریکی پالیسی کا نقطہ اختتام ہوگا، مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ ایک نئی کشیدگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ امریکی صدر حالات کی نزاکت کا اداراک کرتے ہوئے تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کے اپنے وعدے پر عملدرآمد موخر کردیں گے۔
امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے امکانات پر گذشتہ کئی ماہ سے بحث جاری ہے۔ امکان ہے کہ صدر ٹرمپ آئندہ ہفتے سفارت خانے کی القدس منتقلی کا ’دھماکہ خیز‘ اعلان کرسکتے ہیں۔ ان کا یہ اقدام ایک طرف اپنے سیاسی مطالبات اور وعدوں کی تکمیل کی طرف اہم قدم ہوگا بلکہ فلسطین ۔ اسرائیل کشمکش کے حل کے لیے فریقین پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہوگا۔
خبر رساں ادارے’رائیٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے پر غور کررہے ہیں۔ وہ اپنے پیش رو صدور کے برعکس القدس کے بارے میں اسرائیلی موقف کے زیادہ قریب ہیں۔
امریکی صدر کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کے فیصلے پر شدید غم وغصے اور رد عمل کی توقع ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان طویل عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات کی بحالی کے امکانات مزید کم ہوجائیں گے اور دونوں فریق ایک دوسرے کے قریب آنے کے بجائے دور ہوتے چلے جائیں گے۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں مگر رواں سال مئی میں دورہ اسرائیل کےدوران انہوں نے سفارت خانے کی منتقلی کا فیصلہ چھ ماہ کے لیے موخر کردیا تھا۔