تقریبا 9 برس قبل سنہ2008ء میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے کے دوران اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے کھڑے فلسطینی نوجوانوں کے ایک گروپ کو نشانہ بنایا گیا تو ان میں سات نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گئے جب کہ ایک نوجوان ابراہیم ابو ثریا اپنی دونوں ٹانگیں گنوا کر زندہ رہ گیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ابراہیم ابو ثریا فلسطینی تحریک آزادی کا جانباز سپاہی تھا جس نے کئی سال تک صہیونی دہشت گردی کے خلاف ہرمظاہرے میں حصہ لیا۔ نو سال قبل جب وہ دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگیا تب بھی اس کی محرومی اسے تحریک آزادی فلسطین کے لیے مظاہروں میں شرکت سے نہ روک سکی۔
ابو ثریا گیارہ اپریل 2008ء کو اسرائیلی فوج کے حملے میں شدید زخمی کیا گیا۔
اسرائیل کی اس مجرمانہ کارروائی کے بعد غزہ پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں سکونت پذیر نوجوان ابراہیم اپنے پسندیدہ شوق اور پیشے یعنی مچھلیاں کے شکار کو ترک کرنے پر مجبور ہو گیا۔
ابراہیم کے گھرانے کے مالی حالات اسے پنڈلیوں سے محروم ہونے کے باوجود روزگار کی تلاش میں سڑک پر لے آئے۔ اس نے ملازمت تلاش کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی مگر ناکام رہا۔ آخرکار اس نے گاڑیاں دھونے کا کام شروع کر دیا۔
ابراہیم کی جانب سے گاڑی دھونے کے لیے اس کی چھت پر چڑھنے کا منظر راہ گیروں کے لیے دل چسپی کا سامان ہوتا ہے۔ غزہ پٹی کے اکثر مظاہروں اور سیاسی واقعات میں اس کی موجودگی نے لوگوں میں اسے ایک جانا پہچانا انسان بنا دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلانِ قُدس کے بعد غزہ پٹی میں ہونے والا کوئی ایسا احتجاجی مظاہرہ اور ریلی نہیں جس میں ابراہیم شریک نہ ہوتا ہو۔
ایسا نظر آتا ہے کہ قابض حکام نے جمعے کے روز اُس شخص کے زندگی کے سفر پر روک لگانے کا فیصلہ کر لیا جو آدھے جسم کے ساتھ مزاحمت کی علامت بن گیا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے ابراہیم ابو ثریا کو براہ راست سر میں گولی ماری گئی تا کہ وہ اپنے اُن ساتھیوں سے جا ملے جو 9 برس قبل اسے چھوڑ کر جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔
شہید کے قریبی دوست حسین الکرد کا کہنا ہے کہ اپنی شہادت سے قبل ابو ثریا نے صہیونی ریاست کے خلاف نکالے گئے جلوس میں اپنی وہیل چیئر پر شرکت کی۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں غلیل تھام رکھی تھے جس سے وہ اسرائیلی فوجیوں پر کنکر پھینک رہا تھا۔ اس دوران ایک اسرائیلی فوجی اس کےقریب آیا اور اس کے منہ پر گولیاں مار دیں۔ یوں ابو ثریانے بزدل صہیونی فوجیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔
ابراہیم ابو ثریا کو جس بزدلی کے ساتھ شہید کیا گیا وہ بھی صہیونی ریاست کی وحشت اور بربریت کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔